چمن میں پھول کھلیں گے کسی بہانے سے: نذرِ بسمل عظیم آبادی ۔۔۔بسمل عظیم آبادی کے مصرعہ طرح پر روزنامہ انقلاب پٹنہ کے ماہ رواں کے طرحی مشاعرے کے لئے لکھی گئی خاکسار کی فی البدیہہ طرحی غزل ، بشکریہ روزنامہ انقلاب پٹنہ بتاریخ ۱۷ اگست ۲۰۱۸
بسمل عظیم آبادی کی زمین میں روزنامہ انقلاب پٹنہ کے طرحی مشاعرے کے لئے خاکسار کی غزل کے ساتھ چند مزید شعرا کی طرحی غزلیں
بشکریہ : روزنامہ انقلاب پٹنہ بتاریخ ۱۷ اگست ۲۰۱۸
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
سکون ملتا ہے جس کو مجھے ستانے سے
نہ باز آئے گا وہ مجھ پہ مُسکرانے سے
بہار صحنِ چمن میں ہے میرے آنے سے
چلا گیا تو نہ آؤں گا پھر بُلانے سے
خزاں کے بس میں نہیں روک دے وہ رشد و نمو
’’ چمن میں پھول کھلیں گے کسی بہانے سے ‘‘
امیر شہر کو آنا ہے گر خود آجائے
ہے احتراز مجھے اُس کے پاس جانے سے
اُسے ہے بارِ سماعت ہر ایک بات مری
ملے گا کیا اُسے سوزِ دروں سنانے سے
ہے بے لگام جو عہدِ رواں میں اشہبِ وقت
ڈرے وہ کہہ دو زمانے کے تازیانے سے
وہ سوچتا ہے کہ مسند نشین پھر ہوگا
مجھے ہی تختۂ مشقِ ستم بنانے سے
کہو مِلائے نہ آنکھیں وہ موجِ دریا سے
حباب ٹوٹ گیا اپنا سر اُٹھانے سے
دکھا رہا ہوں اسے اس کی شکل میں اُس میں
وہ کیوں ہے چیں بہ جبیں آئینہ دکھانے سے
ہیں آس پاس کئی اور بستیاں موجود
جلن ہے کیوں اُسے بس میرے آشیانے سے
مجھے سمجھتا ہے جو اپنا مُہرۂ شطرنج
وہ چوکتا نہیں اپنے کبھی نشانے سے
تھا مارِ آستیں جب خود ہی میرا پروردہ
نہیں ہے اب کوئی شکوہ مجھے زمانے سے
خدانے دی ہے مرے منھ میں بھی زباں برقیؔ
اگر میں بولا تو بولوں گا پھر ٹھکانے سے
بشکریہ : روزنامہ انقلاب پٹنہ بتاریخ ۱۷ اگست ۲۰۱۸
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
سکون ملتا ہے جس کو مجھے ستانے سے
نہ باز آئے گا وہ مجھ پہ مُسکرانے سے
بہار صحنِ چمن میں ہے میرے آنے سے
چلا گیا تو نہ آؤں گا پھر بُلانے سے
خزاں کے بس میں نہیں روک دے وہ رشد و نمو
’’ چمن میں پھول کھلیں گے کسی بہانے سے ‘‘
امیر شہر کو آنا ہے گر خود آجائے
ہے احتراز مجھے اُس کے پاس جانے سے
اُسے ہے بارِ سماعت ہر ایک بات مری
ملے گا کیا اُسے سوزِ دروں سنانے سے
ہے بے لگام جو عہدِ رواں میں اشہبِ وقت
ڈرے وہ کہہ دو زمانے کے تازیانے سے
وہ سوچتا ہے کہ مسند نشین پھر ہوگا
مجھے ہی تختۂ مشقِ ستم بنانے سے
کہو مِلائے نہ آنکھیں وہ موجِ دریا سے
حباب ٹوٹ گیا اپنا سر اُٹھانے سے
دکھا رہا ہوں اسے اس کی شکل میں اُس میں
وہ کیوں ہے چیں بہ جبیں آئینہ دکھانے سے
ہیں آس پاس کئی اور بستیاں موجود
جلن ہے کیوں اُسے بس میرے آشیانے سے
مجھے سمجھتا ہے جو اپنا مُہرۂ شطرنج
وہ چوکتا نہیں اپنے کبھی نشانے سے
تھا مارِ آستیں جب خود ہی میرا پروردہ
نہیں ہے اب کوئی شکوہ مجھے زمانے سے
خدانے دی ہے مرے منھ میں بھی زباں برقیؔ
اگر میں بولا تو بولوں گا پھر ٹھکانے سے