رحمت الٰہی برق اعظمی :بقلم حقانی القاسمی
رحمت الٰہی برق اعظمی
تحریر: حقانی القاسمی
رحمت الٰہی برق اعظمی
اعظم گڑھ کے ممتاز سخن وروں میں ان کا بھی شمار ہے ۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ممتاز ناقد محمد حسن عسکری کی وہ بات ذہن میں گونجنے لگتی ہے جو انہوں نے فراق گورکھپوری کے تعلق سے کہی تھی۔ کہ فراق کی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ بھر پور سانس کی شاعری ہے ان کی شاعری کی سانسیں چھوٹی اور بڑی نہیں ہیں اور عسکری صاحب نے بھی شاعری کے سانس کے اثرات کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانس کا نظام درست نہ ہوتو شاعری اچھی نہیں ہو سکتی۔
برق اعظمی کی شاعری کی بھی وہ خوبی ہے کہ اس میں سانس یا سارس کی پروبلم نہیں ہے ۔انھوں نے تضمینیں بھی لکھی ہیں اور تاریخی قطعات بھی لکھے ہیں اور دونوں مشکل معرکیں ہیں وہ یقینی طورپر ان یک لسانی شاعروں سے مختلف ہیں جو چند بحور و اوزان تک ہی موقوف و محدود ہیں مگر برق اعظمی کا دائرہ سخن صحرا کی طرح وسیع اور بسیط ہے ۔ ان کی تخلیقی شعلگی اور شعری آتش فشانی کا اندازہ مختلف اسالیب اور اصناف میں لکھی گئی شاعری سے ہوتا ہے۔ انھوں نے لکھنو اور دہلی دونوں دبستانوں سے استفادہ کیا ہے ۔ تنویر سخن ان کا مجموعہ کلام ہے جس میں انھوں نے عالم خواب و خیال میں عارف رومی اقبال اور غالب سے گفتگو کی ہے۔ حضرت عبدالرحمن جامی ، خواجہ عثمان ہارونی ، حضرت امیر خسرو، نصیر الدین چراغ دہلوی، اور فخر الدین عراقی،کی غزلوں پر جو تضمین انھوں نے لکھی ہیں وہ بہت کامیا ب ہیں اور اس بات کی دلیل ہیں کہ برق اعظمی کا مطالعہ مختلف ادبیات کو محیط ہے۔ خواجہ عثمان ہارونی کی غزل پر ان کی تضمین کچھ یوں ہے۔
مرا سینہ رہے کب تک امین راز ہمرازاں
سہی جاتی نہیں اب تو سخن چینئ غمازاں
خبر لے اب طبیب حالت نا ساز نا سازاں
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
برق اعظمی ( 1911-1983) کے کلام میں جو سادگی ، شیرینی، سوز اور ساز ہے وہ انہیں زندہ رکھیں گے۔ شاعر مشک بار ہو ، مثل گل اور گلاب ہوتو اس کی خوشبو دور دور تک پھیلتی ہے۔
رحمت الٰہی برق اعظمی
اعظم گڑھ کے ممتاز سخن وروں میں ان کا بھی شمار ہے ۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ان کی شاعری پڑھتے ہوئے ممتاز ناقد محمد حسن عسکری کی وہ بات ذہن میں گونجنے لگتی ہے جو انہوں نے فراق گورکھپوری کے تعلق سے کہی تھی۔ کہ فراق کی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ بھر پور سانس کی شاعری ہے ان کی شاعری کی سانسیں چھوٹی اور بڑی نہیں ہیں اور عسکری صاحب نے بھی شاعری کے سانس کے اثرات کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سانس کا نظام درست نہ ہوتو شاعری اچھی نہیں ہو سکتی۔
برق اعظمی کی شاعری کی بھی وہ خوبی ہے کہ اس میں سانس یا سارس کی پروبلم نہیں ہے ۔انھوں نے تضمینیں بھی لکھی ہیں اور تاریخی قطعات بھی لکھے ہیں اور دونوں مشکل معرکیں ہیں وہ یقینی طورپر ان یک لسانی شاعروں سے مختلف ہیں جو چند بحور و اوزان تک ہی موقوف و محدود ہیں مگر برق اعظمی کا دائرہ سخن صحرا کی طرح وسیع اور بسیط ہے ۔ ان کی تخلیقی شعلگی اور شعری آتش فشانی کا اندازہ مختلف اسالیب اور اصناف میں لکھی گئی شاعری سے ہوتا ہے۔ انھوں نے لکھنو اور دہلی دونوں دبستانوں سے استفادہ کیا ہے ۔ تنویر سخن ان کا مجموعہ کلام ہے جس میں انھوں نے عالم خواب و خیال میں عارف رومی اقبال اور غالب سے گفتگو کی ہے۔ حضرت عبدالرحمن جامی ، خواجہ عثمان ہارونی ، حضرت امیر خسرو، نصیر الدین چراغ دہلوی، اور فخر الدین عراقی،کی غزلوں پر جو تضمین انھوں نے لکھی ہیں وہ بہت کامیا ب ہیں اور اس بات کی دلیل ہیں کہ برق اعظمی کا مطالعہ مختلف ادبیات کو محیط ہے۔ خواجہ عثمان ہارونی کی غزل پر ان کی تضمین کچھ یوں ہے۔
مرا سینہ رہے کب تک امین راز ہمرازاں
سہی جاتی نہیں اب تو سخن چینئ غمازاں
خبر لے اب طبیب حالت نا ساز نا سازاں
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
برق اعظمی ( 1911-1983) کے کلام میں جو سادگی ، شیرینی، سوز اور ساز ہے وہ انہیں زندہ رکھیں گے۔ شاعر مشک بار ہو ، مثل گل اور گلاب ہوتو اس کی خوشبو دور دور تک پھیلتی ہے۔