انتخاب کلام احمد علی برقی اعظمی
• انتخاب کلام احمد علی برقی اعظمی
اک یادوں کی بارات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
اب شدتِ جذبات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
یہ ترکِ تعلق کا نتیجہ ہے کہ جس سے
اب شوقَ ملاقات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
ساتھ رہتے ہوے بے شمار آدمی
مثلِ سیماب ہے بیقرار آدمی
مال و زر پر یہ مرتا ہے سارا جہاں
یہ بتائیں کرے کس سے پیار آدمی
گذر رہے ہیں شب و روز کس زمانے میں
مرا ہی نام نہیں ہے مرے فسانے میں
درِ دل پر ہوں میں اب تیرے لئے چشم براہ
میں ہو مشتاق ترا بھول نہ جانا اے دوست
میری غزلوں کا ہے موضوع سخن تیرا خیال
روح پرور ہے بہت دل کا لگانا اے دوست
وہ ایک جھلک دکھلا بھی گئے وعدوں سے ہمیں بہلا بھی گئے
اک لمحہ خوشی دے کر ہم کو برسوں کے لئے تڑپا بھی گئے
آنکھوں میں شرابِ شوق لئے دروازۂ دل سے یوں گذرے
میخانۂ ہستی میں آکر وہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
خدا کسی کو نہ وہ ذوق خودنمائی دے
نہ جس سے اپنے سوا اور کچھ دکھائی دے
کنویں میں ڈال دے یوسف سے مہ جبیں کوجو
کبھی کسی کو خدایا نہ ایسا بھائی دے
کیا اس سے بیاں حالِ زبوں اپنا تو یہ بولا
جئے، ہے جس کوجینا اور جسے مرنا ہے مر جائے
تو بجھانا چاہتا ہے میری قسمت کے چراغ
بجھ نہ جائیں دیکھ تیری شان و شوکت کے چراغ
ہو نہ جائے ان سے گل تیری بھی شمعِ زندگی
ہر طرف تونے جلائے ہیں جو نفرت کے چراغ
سب کرو بس نگہہِ ناز چرانے کے سوا
کچھ بھی کہہ سکتے ہو تم لوٹ کے جانے کے سوا
کُھلا ہے میرا چلے آئئے دریچۂ دل
پڑھا نہیں ہے ابھی کیا مرا جریدۂ دل
دھڑک رہے ہیں فقط آپ اس کی دھڑکن میں
سوائے آپ کے کوئی نہیں وظیفۂ دل
مار ڈالے نہ یہ تنہائی کا احساس مجھے
منتظر جس کا تھا اب وہ نہیں آنے والا
اس نے منجدھار میں کشتی کو مری چھوڑ دیا
تھا جو طوفانِ حوادث سے بچانے والا
اِس دور کا اُس دور سے دستور جدا ہے
حق چھین لیا کرتے ہیں مانگا نہیں کرتے
ہمیں ایک دوسرے پر اگر اعتبار ہوتا
مجھے اس سے پیار ہوتا اسے مجھ سے پیار ہوتا
یہ خمیر جسم و جاں ہے غم و رنج کا مرقع
غمِ زندگی نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا
کرنے سے پہلے قتل مجھے سوچتے ہیں وہ
’’ دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد‘‘
اس جرم بے گناہی کی اب پوچھتے ہیں وہ
ہے اور بھی سزا کوئی دارو رسن کے بعد
کسی کی ہوئی ہے کہ میری یہ ہوگی
بہت جلد ہی بھول جائے گی دنیا
اک یادوں کی بارات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
اب شدتِ جذبات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
یہ ترکِ تعلق کا نتیجہ ہے کہ جس سے
اب شوقَ ملاقات اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
ساتھ رہتے ہوے بے شمار آدمی
مثلِ سیماب ہے بیقرار آدمی
مال و زر پر یہ مرتا ہے سارا جہاں
یہ بتائیں کرے کس سے پیار آدمی
گذر رہے ہیں شب و روز کس زمانے میں
مرا ہی نام نہیں ہے مرے فسانے میں
درِ دل پر ہوں میں اب تیرے لئے چشم براہ
میں ہو مشتاق ترا بھول نہ جانا اے دوست
میری غزلوں کا ہے موضوع سخن تیرا خیال
روح پرور ہے بہت دل کا لگانا اے دوست
وہ ایک جھلک دکھلا بھی گئے وعدوں سے ہمیں بہلا بھی گئے
اک لمحہ خوشی دے کر ہم کو برسوں کے لئے تڑپا بھی گئے
آنکھوں میں شرابِ شوق لئے دروازۂ دل سے یوں گذرے
میخانۂ ہستی میں آکر وہ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
خدا کسی کو نہ وہ ذوق خودنمائی دے
نہ جس سے اپنے سوا اور کچھ دکھائی دے
کنویں میں ڈال دے یوسف سے مہ جبیں کوجو
کبھی کسی کو خدایا نہ ایسا بھائی دے
کیا اس سے بیاں حالِ زبوں اپنا تو یہ بولا
جئے، ہے جس کوجینا اور جسے مرنا ہے مر جائے
تو بجھانا چاہتا ہے میری قسمت کے چراغ
بجھ نہ جائیں دیکھ تیری شان و شوکت کے چراغ
ہو نہ جائے ان سے گل تیری بھی شمعِ زندگی
ہر طرف تونے جلائے ہیں جو نفرت کے چراغ
سب کرو بس نگہہِ ناز چرانے کے سوا
کچھ بھی کہہ سکتے ہو تم لوٹ کے جانے کے سوا
کُھلا ہے میرا چلے آئئے دریچۂ دل
پڑھا نہیں ہے ابھی کیا مرا جریدۂ دل
دھڑک رہے ہیں فقط آپ اس کی دھڑکن میں
سوائے آپ کے کوئی نہیں وظیفۂ دل
مار ڈالے نہ یہ تنہائی کا احساس مجھے
منتظر جس کا تھا اب وہ نہیں آنے والا
اس نے منجدھار میں کشتی کو مری چھوڑ دیا
تھا جو طوفانِ حوادث سے بچانے والا
اِس دور کا اُس دور سے دستور جدا ہے
حق چھین لیا کرتے ہیں مانگا نہیں کرتے
ہمیں ایک دوسرے پر اگر اعتبار ہوتا
مجھے اس سے پیار ہوتا اسے مجھ سے پیار ہوتا
یہ خمیر جسم و جاں ہے غم و رنج کا مرقع
غمِ زندگی نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا
کرنے سے پہلے قتل مجھے سوچتے ہیں وہ
’’ دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد‘‘
اس جرم بے گناہی کی اب پوچھتے ہیں وہ
ہے اور بھی سزا کوئی دارو رسن کے بعد
کسی کی ہوئی ہے کہ میری یہ ہوگی
بہت جلد ہی بھول جائے گی دنیا