روزنامہ صدائے بنگال کے ادبی صفحے ’’ صدائے ادب ‘‘ میں مرتب :محبی نوشاد مومن اور مبصر: ایم زیڈ کنول چیف اکزیکیٹیو جگنو انٹرنیشنل لاہور کی برقی نوازی احمد علی برقی اعظمی
روزنامہ صدائے بنگال کے ادبی صفحے ’’ صدائے ادب ‘‘ میں مرتب :محبی نوشاد مومن اور مبصر: ایم زیڈ کنول چیف اکزیکیٹیو جگنو انٹرنیشنل لاہور کی برقی نوازی
احمد علی برقی اعظمی
لطف کا نوشاد مومن کے ہوں میں منت گذار
دے جزائے خیر انہیں اس کے لئے پروردگار
شعرے مجموعے پہ میرے ہے یہ اظہار خیال
ہیں یہ رشحات قلم ایم زیڈ کنول کے شاہکار
آج کا ادبی صفحہ ہے یہ صدا بنگال کی
جس کی ہیں خدمات ارباب نظر پر آشکار
پیش کرتا ہوں مبارکباد میں اس کے لئے
یہ جریدہ ہو جہاں میں ایک فخر روزگار
ان کا برقی اعظمی ہے صدق دل سے قدرداں
جن کی ہے اردو نوازی باعث صد افتخار
دے جزائے خیر انہیں اس کے لئے پروردگار
شعرے مجموعے پہ میرے ہے یہ اظہار خیال
ہیں یہ رشحات قلم ایم زیڈ کنول کے شاہکار
آج کا ادبی صفحہ ہے یہ صدا بنگال کی
جس کی ہیں خدمات ارباب نظر پر آشکار
پیش کرتا ہوں مبارکباد میں اس کے لئے
یہ جریدہ ہو جہاں میں ایک فخر روزگار
ان کا برقی اعظمی ہے صدق دل سے قدرداں
جن کی ہے اردو نوازی باعث صد افتخار
اندازِ بیاں اور۔۔۔۔۔ ایم زیڈ کنول۔۔لاہور
چیف ایگزیکٹو۔جگنو انٹرنیشنل
(علمی،ادبی، سماجی و ثقافتی روایات کی امین تنظیم)
؎؎؎؎آج برقیؔ ہے گوش برآواز
تم بجاتے ستار آجاؤ
اردو غزل کے باوا آدم ولی دکنی نے کہا تھا۔
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن
بڑے شاعر وہ نہیں جو زیادہ سے زیادہ فلسفہ بگھارتے ہیں یا مذہب کی تلقین کرتے ہیں یا سیاست کے اصول واضح کرتے ہیں بڑے شاعر وہ ہیں جو اپنے خصوصی تجربات کے متعلق بہت کچھ کہتے ہیں۔ان کے لئے راہِ مضمونِ تازہ بند ہوتی ہے اور نہ ہی بابِ سخن کا در۔ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی بھی ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن پر قدرت نے کمالِ مہربانی سے بابِ سخن کے در یوں وا کئے کہ ہر لحظہ ایک نیا مضمون ، ایک نیا آہنگ لئے ان کے قلم کی رہوار پکڑے انہیں بارگاہِ سخن میں سجدہٗ تعظیمی بجا لانے کی دعوتِ نظارہ دیتے دکھائی دیتا ہے۔” روحِ سخن سے محشرِ خیال "تک اسی سجدہٗ تعظیمی کی جلوہ آفرینیاں ہیں۔ عبدالحئی اسسٹنٹ ایڈیٹر، اردو دنیا، نئی دہلی ان کے متعلق یوں رقم طراز ہیں۔
”آج وہ (ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی)شاید واحد شاعر ہیں جو انٹر نیٹ اور سوشل سائنس کی مدد سے دنیا کے مختلف حصوں میں معروف ومقبول ہیں۔ "
یہ بات سو فیصد درست ہے۔ آپ شعر کہتے نہیں بلکہ شعر آپ پر اترتا ہے۔قدرت نے ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کو قادر الکلامی کی دولتِ خداداد سے اس فیاضی سے نوازا ہے کہ اردو و فارسی دونوں زبانوں پر دسترس ان کا نصیب بن گئی۔اس کے ساتھ ہی زود گوئی ان کے مزاج میں اس طرح رچ بس گئی کہ برقی رابطوں پر ہرجگہ برقی نوازی ہونے لگی۔ان سب کے باوجود ان میں تصنع کا شائبہ تک نہیں۔ درویشی کی چادر اوڑھے 40 برس سے شعر و ادب کی آبیاری میں مصروفِ عمل ہیں۔ انہیں نہ تو ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پرواہ۔بس اپنے پرائے، رشتے ناطے سے بے پروا ہو کر انسانیت نوازی کا قرض ادا کر رہے ہیں۔وہ خود کہتے ہیں کہ یہ خوئے بے نیازی انہیں بہت عزیز ہے تا آنکہ ان کی آن بان پر حرف نہ آئے۔لیکن انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ جن کی اپنی کوئی یادگار نہیں وہ ان کے نام و نشان پر فخر کرتا ہے۔
جس کی نہیں ہے آج کہیں کوئی یادگار
کرتا ہے فخر وہ مرے نام و نشان پر
دہلی میں ایک شاعرِ گُمنام کا کلام
برقیؔ ہے اب محیط زمان و مکان پر
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی ہندوستان کے شہر دہلی میں بیٹھ کر” دبستانِ دہلی ” کی روایتوں کے امین اور علمبردار بن کرانہیں زندہ رکھنے کی سعی میں مصروفِ عمل ہیں۔وہی شعور، وہی طمطراق،وہی رواداری اور وہی زبان دانی کی آبرو کی تڑپ،ان کے کلام میں جابجا دکھائی دیتی ہے۔اس کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر تابش مہدی (بھارت) لکھتے ہیں "جناب برقی اعظمی نئے عہد کے شاعر ہیں۔ اور پوری تعلیم بھی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوئی ہے۔ لیکن ان کی علمی و ادبی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی سطح پراپنی تہذیب و روایت سے دامن کش نہیں ہوتے۔”یہ ممکن بھی کیسے ہو سکتا ہے۔شعور َ فکر اور وجدان ان کے والدِ گرامی کی محبتوں، صحبتوں،اور شفقتوں کا فیضان ہے۔
انہیں اپنے والدِ محترم رحمت الٰہی برق اعظمی سے نسبت پر بھی بہت ناز ہے۔
مِلا ہے برقؔ سے برقیؔ کو وہ وراثت میں
شعو رِ فکر جو عرضِ ہُنر میں رہتا ہے
انسان کے جمالی احساسات کوزندہ رکھنے اور اسے پروان چڑھانے میں شاعری کا کردار بہت اہم ہے اورغزل شاعری کی مقبول ترین صنف ہے۔یہ شاعری کی آبرو ہے۔یہ ہمارا تہذیبی عرف ہے۔
۔تاریخِ ادب اردو۷۱ء تک (جلد پنجم)کے مرتبین پروفیسر سیدہ جعفر اور پروفیسر گیان چند جین نے لکھا ہے
غزل کی جڑیں ہماری تہذیب اور سماجی زندگی میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ہر دور میں اس صنف نے ہماری جذباتی، ذہنی، اور سماجی تقاضوں کی بڑی سچی اور بھر پور عکاسی کی ہے۔ ..آرائشِ خمِ کاکل، اور اندیشہ ہائے دور دراز، گرمی بزم اوخلو ت غم دار اور کوئے دلدار حقیقت و مجاز اور رندی و اخلاق آموزی کی جیسی رنگا رنگ اور متنوع تصویریں غزل میں ملتی ہیں۔
بقول پروفیسر رشید احمد صدیقی، ہماری تہذیب غزل میں اور غزل تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔اور دونوں کو ایک دوسرے سے رنگ و آہنگ، سمت و رفتار اور وزن اور وقار ملا ہے۔
فراق گورکھپوری کے نزدیک، اردو غزل کا عاشق اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے نہیں اپنی تہذیب کی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔
برقی اعظمی غزل کے شاعر ہیں اوران کی شاعری صرف لفظوں کی مرصع کاری نہیں بلکہ ان میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور دلداری بھی۔یہاں لطیف احساسات اپنی تمام تر روایات کے ساتھ جلوہ نما ہیں اور محبت و انسانیت بھی۔یہاں جمالیات بھی ہے اور کلاسیکیت بھی، سماجی معاملات بھی ہیں اور وارداتِ قلبی بھی۔برقی کی غزلیں متنوع موضوعات کا حیرت کدہ اور جہانِ معانی کا آئینہ خانہ ہیں۔ان میں زندگی کی سی وسعت ہے۔اور الفاظ تو ان کے سامنے گویاہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔مصرعوں کی بنت کاری کیا ہے گویا تراکیب کا چمنستان، اسلوب کا گلستان اور خوا بوں کا ایک جہاں ہے۔یہ وہی خواب ہے جسے بابائے اردو مولوی عبدالحق سے لے کر میر،درد،سودا، آتش، داغ، ساحر اور فیض نے اپنی آنکھوں میں بسایا۔اور جس کو شرمندہٗ تعبیر کرنے کی جستجومیں رحمت الٰہی برق اعظمی سدا منہمک رہے۔ وہی آدرش احمدعلی برقی اعظمی کی رگوں میں لہو بن کر سرایت کر رہا ہے جس نے انہیں اور ان کی شاعری کو جغرافیائی، لسانی، مذہبی قیود سے ماورا کر کے اس سنگھاسن پہ بٹھا دیا ہے جہاں محبت کی دیوی امن کے نغمے گاتی ہے تو زرد رتوں کا موسم بہاررُت کی نویدسنانے طائرِ آوارہ کا ہمنوا بن کے
بصارتوں اور بصیرتوں کو ایک ”محشرِ خیال” سے آشنا کرتا ہے۔جہاں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں آئینہ خانوں کی وحشتوں سے خائف نہیں ہوتیں۔جہاں عشق نعرہٗ مستانہ نہیں بلکہ انا لحق کا فسانہ ہے۔ وہ آنکھوں میں دجلہ،دل میں صحرا لئے بزم آراء ہوتے ہیں تو چار دانگِ عالم ان کے سواگت کو آتا ہے۔لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں لابی ازم کاناسور بڑے بڑے ناموں کو بے توجہی اور ان کے حق سے محروم کر کے ان کی شناخت کو کچلنے پر در پئے آزار ہے۔ اور کتنے ہی بڑے نام اس بے حسی کے ہاتھوں زندہ درگور ہو کر گوشہ نشینی پر مجبو رہو گئے۔اسی رویے کا گھائل برقی اعظمی بھی ہے۔ایک ایساشخص جوسوشل میڈیا پر کوئی بزم ہو، ویب ہو یا بلاگ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آج کے الیکٹرونک میڈیا کے دور میں بلا شرکت غیرے افقِ شاعری پر حکمرانی کر رہا ہے وہاں سوشل میڈیا سے نکل کے ” ادبی دنیا” میں جاتا ہے تو احباب کی بے اعتنائی کاسامنا کرتا ہے لیکن یہ بے اعتنائی اسے مایوس نہیں کرتی بلکہ اس کے جذبوں کو مہمیز کرتی ہے۔ ہمتوں کا یہ شناور پکار اٹھتا ہے۔
سنگباری کا اگر شوق اسے ہے تو نہ ڈر
کس نے روکا ہے تجھے تو بھی اُٹھا لے پتھر
ہے ابھی وقت انہیں روک دے جمنے سے وہاں
ورنہ ٹالے سے ٹلیں گے نہیں ٹالے پتھر
اُس نے برقیؔ کو سمجھ رکھا ہے شاید بُزدل
اُس کا شیوہ نہیں خاموشی سے کھالے پتھر
برقی کے کڑے تیور انہیں اس بے اعتنائی کی دنیا سے نکال کر اس دنیا میں لے جاتے ہیں۔ جہاں سماجی استحصال، انسانی قدروں کی پامالی، اماوس کی تیرہ شبی انہیں ظلمتوں سے برسرِ پیکار ہونے اور قلب و جگر کے زخموں کے اندمال کی تشویش میں سرگرداں کرتے ہیں۔
کیسے کروں میں گردشِ دوراں کی شرحِ حال
برپا ہے میرے ذہن میں اک محشرِ خیال
سوزِ دروں نے کردیا جینا مرا مُحال
قلب و جگر کے زخم کا کب ہوگا اِندمال
ملتے ہیں میر جعفرؔوصادقؔ نئے نئے
ہے بھیڑیوں کے جسم پہ
انساں کی آج کھال
احمد علی برقی صرف اپنی رنگین نوائی سے ہی دلوں کو نہیں لبھاتے بلکہ دیدہئ بینائے قوم ہو کر گراوٹ زدہ، بد حال،اور استحصال زدہ معاشرے کو نہ صرف اس کا مکروہ چہرہ دکھاتے ہیں۔ وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک صحافی کا قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔
تیرے دستورِ زباں بندی سے ڈرلگتا ہے
کس طرح چلتی ہے سرکار کہوں یا نہ کہوں
تیز تلوار سے ہے ایک صحافی کا قلم
آج کی سُرخیئ اخبار کہوں یا نہ کہوں
وہ اوروں کو بھی اس بات کی ترغیب دیتے ہوئے آج کی سیاست کے اصولوں کی قلعی کھولتے ہیں۔
لکھنا ہو جو بھی آپ کو خامہ اٹھایئے
چہرے سے روسیاہوں کے پردا اُٹھایئے
جو کہہ رہے ہیں اہلِ سیاست وہ کیجئے
درکار ہے جو آپ کو پیسا اُٹھایئے
شاید ہے عہدِ نو کی صحافت کا یہ اصول
کرکے ذلیل لطفِ تماشا اُٹھایئے
برقی اس صورتِ احوال سے مایوس نہیں وہ کہتے ہیں۔کیا ہوا جوادبی حلقوں میں احباب کی پذیرائی ان کا مقدر نہ بنی۔ اگر میرا فن فصیلِ شہر سے باہر نہیں جا سکا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا شعورِ فن ابھی بازار کی تلاش میں ہے۔ ایسا بازار جس نے میر، غالب اور اقبال کو زندہئ کیا۔
چراتی پھرتی ہے آنکھیں وہ اہلِ دنیا سے
یہ کون نرگسِ بیمار کی تلاش میں ہے
فصیلِ شہر سے باہر نہ جا سکا اب تک
شعورِ فن مرا بازار کی تلاش میں ہے
ہیں میرؔ و غالب و اقبال زندہئ جاوید
زمانہ ایسے ہی فنکار کی تلاش میں ہے
احمد علی برقی اعظمی مشرقی تہذیب کے پرچارک ہیں۔وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی اہمیت جتاتے ہوئے آج مسلمانوں کی ان کے اسلامی معیار اور اقدار سے دور ی اورمادر پدر آزادی کا ذمہ دار مغربی تہذیب کو گردانتے ہیں۔آج اخلاقیات کا دیوالیہ نکلا ہوا ہے۔ ایسے میں وہ مسلم امہ مغربی تہذیب و تمدن پر نکتہ چینی کر کے اس کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے۔وہ تہذیبِ مغربی پر تنقید کرتے ہوئے اپنی اس تہذیب کو یاد کرتے ہیں جس کی درخشاں روایات نے ہمیں اوجِ ثریا ہی پہنچایا۔ جہاں علوم و فنون کی ترقی اپنے اوج پہ دکھائی دیتی
ہے۔جس نے تاجِ سرِ دارا اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔
ہے مشرقی تہذیب رواداری کی مظہر
بے راہ روی کا ہے سبب مغربی تہذیب
اقدارِ کُہن میں تھی نہاں عظمتِ رفتہ
ہوگی نہ عیاں کیا وہ دوبارہ کبھی تہذیب
باز آئے ہم اس دور ترقی کی رَوِش سے
مطلوب ہے برقی ؔ ہمیں اپنی وہی تہذیب
آج تہذیبوں کے تصادم نے عالمی امن کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر ہرذی شعور نوحہ کناں ہے اور اپنی بساط بھر انسانیت کے برہنہ لاشے کو آبرودینے کی لگن میں منہمک ہے۔ احمد علی برقی بھی اس صورتحال پررنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی قوم کو اس کا تابناک ماضی یاد کراتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ آج ہم گرداب میں اسی لئے گھرے ہوئے ہیں کہ ہم اپنی درخشاں روایات کو بھول چکے ہیں۔ وہ قوم کو تاریخ کا بھولا ہوا سبق یاد کراتے ہوئے کہتے ہیں۔
اپنی تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھو
ناخدا پہلے ہوا کرتا تھا دریا اپنا
ہم میں کوئی بھی نہیں ایسا بچالے جو اسے
موجِ طوفاں میں گِھرا ہے جو سفینہ اپنا
خانہ جنگی میں ہیں مشغول عرب اور عجم
آج گردش میں ہے ہر سمت ستارہ اپنا
ڈاکٹر احمد علی اعظمی ماہر لسانیات ہیں۔ ان کا یہ جوہر ان کے حرف حرف سے عیاں ہے۔ ان کے کلام میں سادگی بھی ہے اور پُر کاری بھی۔
استعارات، تشبیہات،اور نئی نئی پیکر تراشیوں ے مزین اس کلام میں غنایت اور نغمگی بھی جلوہ گر ہے۔چار دن کی چاندنی،مارِ آستین،سبز باغ دکھانا،ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا،اپنی ڈفلی اپنا راگ،جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے،ایسے بے شمارمحاورے اور ضرب المثل جا بجا اشعار کے حسن کو چار چاند لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ کل رہے رہے نہ رہے سوچ لیجئے
ہے چار دن کی چاندنی جو اقتدار کی
فریب میں آگیا میں اُس کے، نہ تھا یہ وہم و گُماں میں میرے
دکھائے گا سبز باغ پھر وہ، نئے نئے گل کھلا کھلا کے
مور کا رقص اُسے نہیں بھاتا، اپنی چال پہ ہے اِتراتا
ناچ نہ جانے ٹیڑھا آنگن، ماشا اللہ ماشا اللہ
شمع کے ارد گرد پروانے
ہاتھ دھو دیں نہ اپنی جان سے آج
جسے دیکھو مجھے ڈستا ہے مارِ آستیں بن کر
میں برقی ؔ اپنے جن احباب کی محفل میں رہتا ہوں
تھے مارِ آستیں مرے پروردہ اِس لئے
میرے لئے وہ وقت کے ضحاک ہوگئے
کی مارِ آستیں کو سمجھنے میں میں نے بھول
محروم حق سے تھا جو وہ حقدار ہی رہا
موجِ طوفاں میں گِھرا ہے جو سفینہ اپنا
اپنی ڈفلی ہے الگ اور الگ اپنا ہے راگ
موجِ طوفانِ حوادث سے ڈروں کیوں برقیؔ
کون چکھ سکتا ہے اس کو جسے اللہ رکھے
عشق کرنا ہے تو پھر سوچ لو اس کا انجام
کہیں برقی ؔسرِ بازار وہ رسوا نہ کرے
تھے مارِآستیں جو پَل رہے تھے میرے دامن میں
نہ جانے بھاگتا پھرتا تھا کیوں میں مار کے پیچھے
مہرہئ شطرنج بن کر رہ گیا ہوں آج کل
اُنگلیوں پر وقت نے اپنی نچایا ہے بہت
کہہ رہا ہے آج کل وہ صرف اپنے من کی بات
سن رہا تھا جو مری اُس نے سنایا ہے بہت
اُس کے جھانسے میں نہ آؤں گا میں بھولے سے کبھی
سبز باغ ایسا ستمگر نے دکھایا ہے بہت
حاشیہ بردار تھے پہلے جو برقی ؔکے کبھی
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے ریاضت کی خار دار دوادی میں جو آبلہ پائی کی اس نے انہیں اور ان کی شاعری کو جن جولانیوں سے نوازا ہے اور جس خوشبو سے معطر کیا ہے اس کی نہ کوئی جغرافیائی حد ہے نہ مسلکی و لسانی۔اس نیفی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری کو ان کی پہچان بنا دیا۔۔زیرِ نظر مجموعہ ٗ کلام میں بھی رمزیت، ایمائیت،جاذبیت اور لطافت سے بھرپورفی البدیہہ طرحی غزلیں ہیں جو کہیں نہ کہیں سندِ پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔یوں کہیئے کہ روش روش پہ گلستانِ ادب کو خوشبوؤں سے معطر کر کے بصارتوں کے ساتھ بصیرتوں کے لئے جستجو و حیرت کے در وا کئے ایک جہانِ محبتاں ہے۔،ان کی روانی و سلاست کے راستے میں کوئی موڑ نہیں آتا ہاں پاتال کی گہرائی ضرور ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ لینے گئے اور انہیں پیغمبری مل گئی۔ادب میں بھی ایک آگ کی جستجو ہوتی ہے۔ اور یہ جستجو حقیقی ہوتی ہے۔ اس میں آدمی تن من دھن لگا دے تو آ گ ڈھونڈنے والے کو پیغمبری بھی مل جاتی ہے۔ جہانِ شعرو ادب میں خصوصی تجربات میں ایک کلی نظر کی وجہ سے برقی کی شاعری میں ایک خاص گہرائی اور آفاقیت پیدا کر دی ہے اور اسے ایک ایسی آبجو بنا دیاہے جو بہتی چلی جاتی ہے جہاں سوزِ درو ں اسے آفاقی قدروں سے آشنا کرتا ہے۔
میری یہ طرحی غزل سوز دروں ہے میرا
میری آواز میں آواز مِلانا ہوگا