ارمان اپنے مِل گئے گرد و غبار میں : احمد علی برقی اعظمی
دیا کے ۴۸ ویں آن لائن فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری طرحی غزل
احمد علی برقی اعظمی
ارمان اپنے مِل گئے سارے غبار میں
’’ دو گز زمیں بھی مِل نہ سکی کوئے یار میں‘‘
آیا نہ وہ بھی پُرسشِ احوال کے لئے
کردی متاعِ شوق فدا جس کے پیار میں
معلوم ہے نہ آئے گا وعدہ شکن مگر
ہیں اب بھی اپنے دیدہ و دل انتطار میں
ہم چاہتے ہوئے بھی نہ اُس کو بُھلا سکے
اب کیا کریں جو دل ہی نہ ہو اختیار میں
میں تجھ سے کیا بتاؤں نہیں سن سکے گا تو
سوزِ ردروں ہے کتنا دلِ داغدار میں
شیرازۂ حیات کیا اس نے منتشر
ہم تو بکھر کے رہ گئے بس اعتبار میں
دشمن کو بھی نصیب نہ ہو ہے یہی دعا
ہم کو ملی ہے جیسی سزا اس کے پیار میں
ہوتی ہے صبر و ضبط کی بھی کوئی ایک حد
گُھٹ گُھٹ کے مر نہ جائیں یونہی انتظار میں
تیرِ نگاہِ ناز سے وحشت زدہ ہوں میں
کردے نہ کام ختم مرا ایک وار میں
برقی دیارِ شوق میں جاتے تو ہو مگر
رکھنا ذرا سنبھل کے قدم کوئے یار میں
احمد علی برقی اعظمی
ارمان اپنے مِل گئے سارے غبار میں
’’ دو گز زمیں بھی مِل نہ سکی کوئے یار میں‘‘
آیا نہ وہ بھی پُرسشِ احوال کے لئے
کردی متاعِ شوق فدا جس کے پیار میں
معلوم ہے نہ آئے گا وعدہ شکن مگر
ہیں اب بھی اپنے دیدہ و دل انتطار میں
ہم چاہتے ہوئے بھی نہ اُس کو بُھلا سکے
اب کیا کریں جو دل ہی نہ ہو اختیار میں
میں تجھ سے کیا بتاؤں نہیں سن سکے گا تو
سوزِ ردروں ہے کتنا دلِ داغدار میں
شیرازۂ حیات کیا اس نے منتشر
ہم تو بکھر کے رہ گئے بس اعتبار میں
دشمن کو بھی نصیب نہ ہو ہے یہی دعا
ہم کو ملی ہے جیسی سزا اس کے پیار میں
ہوتی ہے صبر و ضبط کی بھی کوئی ایک حد
گُھٹ گُھٹ کے مر نہ جائیں یونہی انتظار میں
تیرِ نگاہِ ناز سے وحشت زدہ ہوں میں
کردے نہ کام ختم مرا ایک وار میں
برقی دیارِ شوق میں جاتے تو ہو مگر
رکھنا ذرا سنبھل کے قدم کوئے یار میں