ایک زمین کئئ شاعر مظفر رزمی اور احمد علی برقی اعظمی: لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
ایک زمین کئئ شاعر
مظفر رزمی اور احمد علی برقی اعظمی
مظفر رزمی
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی
جاگ اے مرے ہمسائے خوابوں کے تسلسل سے
دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اُتر آئی
چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں
یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کیا سانحہ یاد آیا رزمی کی تباہی کا
کیوں آپ کی نازک سی آنکھوں میں نمی آئی
احمد علی برقی اعظمی
وہ بھول گیا مجھ سے برسوں کی شناسائی
”لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی“
حالات کا اب میں ہوں خاموش تماشائی
بھائی سے تڑپتا ہے ملنے کے لئے بھائی
تصویرِ تصور ہی بس ایک سہارا ہے
فرقت نے بنا ڈالا اُس کی مجھے سودائی
جذبات تھے بے قابو کرتا بھی تو کیا کرتا
اس رشکِ گُلِ تر کی جب یاد مجھے آئی
یادوں کے جھروکوں سے حسرت ہے اسے دیکھوں
پہلے تھا جو آنکھوں کی میری کبھی بینائی
وہ دیکھنا مُر مُڑ کر اس کا مجھے حسرت سے
باقی نہ رہی میری جب قوتِ گویائی
جو تارِ رگِ جاں پر ہر وقت غزلخواں تھی
رس گھولتی ہے اب بھی کانوں میں وہ شہنائی
دُزدیدہ نگاہی میں کھو جا تا تھا دل جن کی
اُن جھیل سی آنکھوں کی یاد آتی ہے گہرائی
دیتا ہے کوئی دستک آ آ کے درِ دل پر
کاٹے نہیں کٹتی ہے برقیؔ شبِ تنہائی