میں اپنے پاس بیٹھا رہ گیا ہوں: فی البدیہہ طرحی غزل بر مصرعہ طرح اقبال کوثر: احمد علی برقی اعظمی
جدید ادبی تنقیدی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۲۹ جون ۲۰۱۲ کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
احمد علی برقی اعظمی
بجا تھا پہلے بے جا رہ گیا ہوں
نہیں تھا ایسا جیسا رہ گیا ہوں
نہیں تھا ایسا جیسا رہ گیا ہوں
میرا سایہ ہی میرا ہمنشیں ہے
’’میں اپنے پاس بیٹھا رہ گیا ہوں‘‘
’’میں اپنے پاس بیٹھا رہ گیا ہوں‘‘
کروں میں کس سے عرضِ حال اپنی
بھری محفل میں تنہا رہ گیا ہوں
بھری محفل میں تنہا رہ گیا ہوں
سمندر کی طرح ہے میری حالت
ہے پانی پھر بھی پیاسا رہ گیا ہوں
ہے پانی پھر بھی پیاسا رہ گیا ہوں
بساطِ زندگی پر کیا بتاؤں
مقدر کا میں مُہرا رہ گیا ہوں
مقدر کا میں مُہرا رہ گیا ہوں
نہیں ہے کوئی میرے آگے پیچھے
میں اپنوں میں اکیلا رہ گیا ہوں
میں اپنوں میں اکیلا رہ گیا ہوں
ہیں کُہنہ مشق جو اقبال کوثر
میں ان کے فن کا شیدا رہ گیا ہوں
میں ان کے فن کا شیدا رہ گیا ہوں
یہ بزم اعزاز میں جن کے سجی ہے
پڑھا اُن کو تو پڑھتا رہ گیا ہوں
پڑھا اُن کو تو پڑھتا رہ گیا ہوں
ہے برقی زندگی ایسا معمہ
اسی کے گِرد اُلجھا رہ گیا ہوں
اسی کے گِرد اُلجھا رہ گیا ہوں
جدید ادبی تنقیدی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرے بتاریخ ۲۹ جون ۲۰۱۲ کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
احمد علی برقی اعظمی
سیاست کا میں مُہرا رہ گیا ہوں
وہ آقا ہیں میں بندا رہ گیا ہوں
وہ آقا ہیں میں بندا رہ گیا ہوں
ہے زیرِ لب تبسم کیوں سبھی کے
میں جیسے اک تماشا رہ گیا ہوں
میں جیسے اک تماشا رہ گیا ہوں
مجھے چشمِ حقارت سے نہ دیکھو
میں فکرو فن میں یکتا رہ گیا ہوں
میں فکرو فن میں یکتا رہ گیا ہوں
ہے اتنا شور بزمِ آب و گِل میں
میں گونگا اور بہرا رہ گیا ہوں
میں گونگا اور بہرا رہ گیا ہوں
نگاہیں دیکھ کر ہیں اس کو خیرہ
اسے دیکھا تو تکتا رہ گیا ہوں
اسے دیکھا تو تکتا رہ گیا ہوں
سمجھتے ہیں مجھے وہ جنسِ ارزاں
ہر اک شے سے میں سستا رہ گیا ہوں
ہر اک شے سے میں سستا رہ گیا ہوں
دکھائی راہ جن کو زندگی بھر
وہ کہتے ہیں میں اندھا رہ گیا ہوں
وہ کہتے ہیں میں اندھا رہ گیا ہوں
نگایہں پھیر لیں جب سے انھوں نے
میں برقی ہکّا بَکّا رہ گیا ہوں
میں برقی ہکّا بَکّا رہ گیا ہوں