جلوۂ زیبا دکھایا میں تو اس قابل نہ تھا : احمد علی برقی اعظمی
دیا کے ۵۲ ویں آن لائن فی البدیہہ مشاعرے بتاریخ ۴ جولائی ۲۰۱۴ لے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
جلوۂ زیبا دکھایا میں تو اس قابل نہ تھا
’’ شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا‘‘
احمد علی برقی اعظمی
جلوۂ زیبا دکھایا میں تو اس قابل نہ تھا
’’ شکر ہے تیرا خدایا میں تو اس قابل نہ تھا‘‘
پیشوا جس دینِ حق کے ہیں محمد مصطفیٰ ﷺ
ایسی اُمت میں اُٹھایا میں تو اس قابل نہ تھا
ایسی اُمت میں اُٹھایا میں تو اس قابل نہ تھا
جس کی ہر آیت سے ظاہر ہے ترا جاہ و جلال
وہ کلامِ حق سنایا میں تو اس قابل نہ تھا
وہ کلامِ حق سنایا میں تو اس قابل نہ تھا
جس کی خوشبوسے معطر ہے جہانِ آب و گِل
خار میں وہ گُل کِھلایا میں تو اس قابل نہ تھا
خار میں وہ گُل کِھلایا میں تو اس قابل نہ تھا
ہیں جہاں آرام فرما شافعِ روزِ جزا
تونے اُس در پر بُلایا میں تو اس قابل نہ تھا
تونے اُس در پر بُلایا میں تو اس قابل نہ تھا
رمز سے کثرت میں وحدت کے ہے یہ دل آشنا
ہو کے جُز کُل میں سمایا میں تو اس قابل نہ تھا
ہو کے جُز کُل میں سمایا میں تو اس قابل نہ تھا
ذرۂ ناچیز سے کمتر ہے برقی اعظمی
مجھ کو بھی اپنا بنایا میں تو اس قابل نہ تھا
مجھ کو بھی اپنا بنایا میں تو اس قابل نہ تھا
دیا کے ۵۲ ویں آن لائن فی البدیہہ مشاعرے بتاریخ ۴ جولائی ۲۰۱۴ لے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
مجھ کو یہ دن بھی دکھایا میں تو اس قابل نہ تھا
بزم میں اپنی بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
احمد علی برقی اعظمی
مجھ کو یہ دن بھی دکھایا میں تو اس قابل نہ تھا
بزم میں اپنی بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
کرکے مجھ کو منتخب اپنی نگاہِ ناز سے
تیرِ مژگاں آزمایا میں تو اس قابل نہ تھا
تیرِ مژگاں آزمایا میں تو اس قابل نہ تھا
حُسنِ نیت کا میں اس کے دے سکوں اس کو جواب
وہ جو میرے کام آیا، میں تو اس قابل نہ تھا
وہ جو میرے کام آیا، میں تو اس قابل نہ تھا
بجھنے والی تھی مری شمعِ شبستانِ حیات
اُس نے اُس کی لو بڑھایا میں تو اس قابل نہ تھا
اُس نے اُس کی لو بڑھایا میں تو اس قابل نہ تھا
غمزہ و ناز و ادا سے کر کے مجھ کو تازہ دم
اس نے میرا دل لُبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
اس نے میرا دل لُبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
وادیٔ غُربت جہاں کوئی نہ تھا پُرسانِ حال
مجھ کو گِرنے سےبچایا میں تو اس قابل نہ تھا
مجھ کو گِرنے سےبچایا میں تو اس قابل نہ تھا
تھا بہت صبر آزما میرے لئے اس کا فراق
کھو چُکا تھا جس کو پایا میں تو اس قابل نہ تھا
کھو چُکا تھا جس کو پایا میں تو اس قابل نہ تھا
جس کو میں وعدہ شکن سمجھا تھا اس نے بر محل
وعدۂ فردا نبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
وعدۂ فردا نبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
داد کے قابل ہے برقی اس کا حُسنِ انتخاب
اُس نے مجھ سے دل لگایا میں تو اس قابل نہ تھا
اُس نے مجھ سے دل لگایا میں تو اس قابل نہ تھا