’’ بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے‘‘ :انحراف ادبی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرےمورخہ 20جولائی 2012 کے لئے میری کاوش احمد علی برقی اعظمی
انحراف ادبی فورم کے پندرہ روزہ فی البدیہہ طرحی مشاعرےمورخہ 20جولائی 2012 کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
احمد علی برقی اعظمی
پُرکیف و دلنواز نظارے نہیں رہے
لمحات ساتھ تھے جو گزارے نہیں رہے
لمحات ساتھ تھے جو گزارے نہیں رہے
کاشانۂ حیات مرا کب کا جل گیا
’’ بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے‘‘
’’ بس راکھ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے‘‘
روشن تھی جن سے شمعِ ِ شبستانِ زندگی
آنکھوں میں اس کی اب وہ ستارے نہیں رہے
آنکھوں میں اس کی اب وہ ستارے نہیں رہے
کس بات پر نہ جانے وہ ہے مجھ سے بدگماں
دیتا تھا وہ جو مجھ کو سہارے نہیں رہے
دیتا تھا وہ جو مجھ کو سہارے نہیں رہے
نظریں چرا رہے ہیں ہمیں اب وہ دیکھ کر
کل تک جو ساتھ میں تھے ہمارے نہیں رہے
کل تک جو ساتھ میں تھے ہمارے نہیں رہے
منجھدھار میں ہے کشتیٔ عمرِ رواں مری
جن کو سمجھ رہا تھا کنارے نہیں رہے
جن کو سمجھ رہا تھا کنارے نہیں رہے
دل ہے مزارِ حسرت و ارمانِ زندگی
برقی غمِ حیات کے مارے نہیں رہے
برقی غمِ حیات کے مارے نہیں رہے