’’ میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ‘‘ : نذرِ جون ایلیا ۔۔ احمد علی برقی اعظمی بشکریہ ایک زمین کئی شاعرگروپ
ایک زمین کئی شاعر
جون ایلیا اور احمد علی برقی اعظمی
جون ایلیا
اب کسی سے مرا حساب نہیں
میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
خون کے گھونٹ پی رہا ہوں میں
یہ مرا خون ہے شراب نہیں
میں شرابی ہوں میری آس نہ چھین
تو مری آس ہے سراب نہیں
نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
طاقت شوخئ جواب نہیں
اب تو پنجاب بھی نہیں پنجاب
اور خود جیسا اب دو آب نہیں
غم ابد کا نہیں ہے آن کا ہے
اور اس کا کوئی حساب نہیں
بودش اک رو ہے ایک رو یعنی
اس کی فطرت میں انقلاب نہیں
احمد علی برقی اعظمی
جب سے وہ رشکِ ماہتاب نہیں
’’ میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ‘‘
میں ہوں دیوانہ وار جس پہ فدا
اس کا کوئی کہیں جواب نہیں
منزل عمر اب وہاں ہے جہاں
اب وہ پہلے سی آب و تاب نہیں
ہے جوعنوان کتابِ دل کا مری
اُس سے بہتر کوئی کتاب نہیں
چشمِ میگوں میں اس کی ہے جیسی
کہیں ایسی کوئی شراب نہیں
رُخِ گلگوں میں جیسی ہے اس کے
جانفزا سرخی گلاب نہیں
دیکھ کر میں جسے ہوں گرویدہ
اس ادا کا کوئی جواب نہیں
میں شبِ ہجر جس سے ہوں دوچار
اس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں
سہہ لئے جتنے رنج و غم میں نے
اور سہنے کی مجھ میں تاب نہیں
خدمتِ خلق میں ہے جو حاصل
اس سے بڑھ کر کوئی ثواب نہیں
ہر کوئی پوچھتا ہے کیا اس کے
ظلم کا کوئی سدِ باب نہیں
ہے جو سوہانِ روح میرے لئے
سوزش قلب ہے کباب نہیں
چشمِ پُرنم میں موجزن ہے جو
اشکِ خوں ہے مرا وہ ، آب نہیں
لکھ دی جو جون ایلیا نے غزل
اس کا اس بحر میں جواب نہیں
قلبِ مُضطر میں میرے اے برقی
کون کہتا ہے اضطراب نہیں
جب سے وہ رشکِ ماہتاب نہیں
’’ میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ‘‘
میں ہوں دیوانہ وار جس پہ فدا
اس کا کوئی کہیں جواب نہیں
منزل عمر اب وہاں ہے جہاں
اب وہ پہلے سی آب و تاب نہیں
ہے جوعنوان کتابِ دل کا مری
اُس سے بہتر کوئی کتاب نہیں
چشمِ میگوں میں اس کی ہے جیسی
کہیں ایسی کوئی شراب نہیں
رُخِ گلگوں میں جیسی ہے اس کے
جانفزا سرخی گلاب نہیں
دیکھ کر میں جسے ہوں گرویدہ
اس ادا کا کوئی جواب نہیں
میں شبِ ہجر جس سے ہوں دوچار
اس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں
سہہ لئے جتنے رنج و غم میں نے
اور سہنے کی مجھ میں تاب نہیں
خدمتِ خلق میں ہے جو حاصل
اس سے بڑھ کر کوئی ثواب نہیں
ہر کوئی پوچھتا ہے کیا اس کے
ظلم کا کوئی سدِ باب نہیں
ہے جو سوہانِ روح میرے لئے
سوزش قلب ہے کباب نہیں
چشمِ پُرنم میں موجزن ہے جو
اشکِ خوں ہے مرا وہ ، آب نہیں
لکھ دی جو جون ایلیا نے غزل
اس کا اس بحر میں جواب نہیں
قلبِ مُضطر میں میرے اے برقی
کون کہتا ہے اضطراب نہیں
Top of Form
Bottom of Form