قوس قزح ادبی گروپ کے ۳۴ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
قوس قزح ادبی گروپ کے ۳۴ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
سمجھ رہا تھا جسے مہرباں نہیں ملتا
جو بانٹ لے مرا دردِ نہاں نہیں ملتا
شبِِ فراق میں وہ جانِ جاں نہیں ملتا
’’ جہاں اُمید ہو اُس کی وہاں نہیں ملتا ‘‘
ہے اُس کا طرزِ عمل میرے ساتھ کچھ ایسا
زمیں سے جیسے کہیں آسماں نہیں ملتا
بظاہر اس سے مری راہ و رسم ہے لیکن
کبھی وہ چھوڑ کے وہم و گُماں نہیں ملتا
بہار میں بھی نمایاں خزاں کے ہیں آثار
وہ باغِ دل کا مرے باغباں نہیں ملتا
کہوں تو کس سے کہوں جا کے اپنا حالِ زبوں
جومعتبر ہو مرا رازداں نہیں ملتا
بھروسہ کرسکوں قول و عمل پہ میں جس کے
مرا کہیں بھی کوئی پاسباں نہیں ملتا
ہے میرے جسم میں خوں مِثلِ آتشِ سیال
بغیر آگ کہیں بھی دھواں نہیں ملتا
مجھے تو لگتے ہیں میری ہی طرح سب بیچین
بتائیں آپ کہاں نوحہ خواں نہیں ملتا
ہے سب کا راگ الگ اور الگ ہے دفلی بھی
مجھے کہیں بھی مرا ہم زباں نہیں ملتا
جسے بھی دیکھئے وہ پی رہا ہے زہر کا گھونٹ
غلط ہے یہ کہ کوئی نیم جاں نہیں ملتا
ہیں اُس کے حاشیہ بردار ہر جگہ موجود
امیر شہر کا نام و نشاں نہیں ملتا
ہیں یوں تو سیکڑوں اخبار عصرحاضر میں
بیاں کرے جو مری داستاں نہیں ملتا
امیر شہر کے ہیں زر خرید سب اخبار
مِلائے اُس کی نہ جو ہاں میں نہیں ملتا
سکونِ قلب میسر نہیں کہیں برقیؔ
ہرایک چیز ہے امن و اماں نہیں ملتا