’’ ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں ‘‘:نذرِ جون ایلیا۔۔۔’’بزم سخن لندن ( برطانیہ) کے آٹھویں عالمی مشاعرے بیاد جون ایلیا کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقیؔ اعظمی
بزم سخن لندن ( برطانیہ) کے آٹھویں عالمی مشاعرے بیاد جون ایلیا کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقیؔ اعظمی
جو اپنا فرض تھا وہ نبھاتا رہا ہوں میں
’’ ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں ‘‘
آئیں نہ آئیں اس کا اُنہیں اختیار ہے
اُن کو بصد خلوص بُلاتا رہا ہوں میں
ہے بھولنے کا جن کو مرض عرضِ مدعا
اُن کو ہمیشہ یاد دلاتا رہا ہوں میں
شاید وہ میری عرض تمنا کا دیں جواب
ہر بارِ ناز اُن کا اُٹھاتا رہا ہوں میں
یہ جانتے ہوئے کہ نہ آئیں گے وہ کبھی
بزمِ خیال اپنی سجاتا رہا ہوں میں
تیرِ نگاہِ ناز سے کرتے رہے وہ وار
ہر بار خود کو اُس سے بچاتا رہا ہوں میں
قول و قسم پہ کرتا رہا جن کے اعتبار
بولے کہ بیوقوف بناتا رہا ہوں میں
اب ہیں مرے حریف وہ جن کے لئے سدا
خونِ جگر کو اپنے جلاتا رہا ہوں میں
کرتے ہیں میری پُرسشِ احوال سے گُریز
وہ روٹھنے پہ جن کو مناتا رہا ہوں میں
کانٹے بچھا رہے ہیں وہی، جن کے آج تک
گل باغِ زندگی میں کھلاتا رہا ہوں میں
برقیؔ وہی تھے میرے لئے مارِ آستیں
جن کو ہمیشہ دودھ پِلاتا رہا ہوں میں
احمد علی برقیؔ اعظمی
جو اپنا فرض تھا وہ نبھاتا رہا ہوں میں
’’ ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں ‘‘
آئیں نہ آئیں اس کا اُنہیں اختیار ہے
اُن کو بصد خلوص بُلاتا رہا ہوں میں
ہے بھولنے کا جن کو مرض عرضِ مدعا
اُن کو ہمیشہ یاد دلاتا رہا ہوں میں
شاید وہ میری عرض تمنا کا دیں جواب
ہر بارِ ناز اُن کا اُٹھاتا رہا ہوں میں
یہ جانتے ہوئے کہ نہ آئیں گے وہ کبھی
بزمِ خیال اپنی سجاتا رہا ہوں میں
تیرِ نگاہِ ناز سے کرتے رہے وہ وار
ہر بار خود کو اُس سے بچاتا رہا ہوں میں
قول و قسم پہ کرتا رہا جن کے اعتبار
بولے کہ بیوقوف بناتا رہا ہوں میں
اب ہیں مرے حریف وہ جن کے لئے سدا
خونِ جگر کو اپنے جلاتا رہا ہوں میں
کرتے ہیں میری پُرسشِ احوال سے گُریز
وہ روٹھنے پہ جن کو مناتا رہا ہوں میں
کانٹے بچھا رہے ہیں وہی، جن کے آج تک
گل باغِ زندگی میں کھلاتا رہا ہوں میں
برقیؔ وہی تھے میرے لئے مارِ آستیں
جن کو ہمیشہ دودھ پِلاتا رہا ہوں میں