امن کا خواہاں ہوں میں نفرت ہے مجھ کو جنگ سے ـموج سخن ادبی گروپ کے ۲۵۰ ویں بین الاقوامی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بیاد شہزاد احمد کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی
موج سخن ادبی گروپ کے ۲۵۰ ویں بین الاقوامی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بیاد شہزاد احمد کے لئے میری طبع
آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
امن کا خواہاں ہوں میں نفرت ہے مجھ کو جنگ سے
تجھ کو ملنا ہو اگر مجھ سے مِلا کر ڈھنگ سے
دشمنی منہگی پڑے گی شرپسندوں سے تجھے
تیرا گھر شیشے کا ہو تو بچ کے رہنا سنگ سے
مِٹ نہ جائے تیرا یہ قومی تشخص ہوشیار
اپنا دل بہلائے گا کب تک رباب و چنگ سے
درمیاں ہے آج شرق و غرب کے جو کشمکش
دور کردے گی تجھے اپنے ترے فرہنگ سے
اپنے پروردہ سے کرنا ہے دغا جن کا شعار
خاتمہ کردیں نہ تیرا فطرتِ خرچَنگ سے
تجھ کو چلنا ہی پڑے گا ساتھ اپنے وقت کے
کچھ نہ ہوگا تجھ کو حاصل تیرے عُذرِ لَنگ سے
کررہی ہے اشکباری چشمِ نَم کچھ اس طرح
’’ قطرہ قطرہ ہو کے جیسے خون ٹپکے سنگ سے ‘‘
حُسنِ نیت سے مسخر کر دلِ نوعِ بشر
تیغِ ایماں رکھ سلامت نفرتوں کے زنگ سے
مان لے اب بھی یہ برقی اعظمی کا مشورہ
دور رہنا باہمی تفریقِ نسل و رنگ سے