طرحی غزل بر مصرعہ طرح رحمت الہی برقؔ اعظمی برائے واٹس ایپ گروپ ’’ بزم سخن لندن برطانیہ‘‘
مصرعہ طرح : کہنا نہ چاہیے تھا مگر کہہ دیا گیا
احمد علی برقیؔ اعظمی
جو فتنہ گر تھا اُس کو بشر کہہ دیا گیا
’’ کہنا نہ چاہیے تھا مگر کہہ دیا گیا ‘‘
دنیائے رنگ و بو کا بھی دستور ہے عجیب
اہلِ نظر کو تنگ نظر کہہ دیا گیا
نا آشنا ہے آج جو فنِ عروض سے
نخلِ ادب کا اُس کو ثمر کہہ دیا گیا
بزمِ ادب میں جس کے ترنم کی دھوم ہے
اس خوشنوا کو مِثلِ جگرؔ کہہ دیا گیا
روشن دماغ تھے جو وہ گوشہ نشیں رہے
جو تیرہ دل تھا نورِ سحر کہہ دیا گیا
اب کررہے ہیں چہرۂ تاریخ مسخ وہ
جو میرا گھر تھا اپنا وہ گھر کہہ دیا گیا
صدیوں سے سجدہ گاہ تھاجو مومنین کی
اُس خانۂ خدا کو کھنڈرکہہ دیا گیا
ہے محتسب کو خوب مہارت حساب میں
تھا جو صفر اسے بھی گُہر کہہ دیا گیا
طرزِ عمل سے اپنے تھا برقیؔ سیاہ قلب
جس خوبرو کو شمس و قمر کہہ دیا گیا
مصرعہ طرح : کہنا نہ چاہیے تھا مگر کہہ دیا گیا
احمد علی برقیؔ اعظمی
جو فتنہ گر تھا اُس کو بشر کہہ دیا گیا
’’ کہنا نہ چاہیے تھا مگر کہہ دیا گیا ‘‘
دنیائے رنگ و بو کا بھی دستور ہے عجیب
اہلِ نظر کو تنگ نظر کہہ دیا گیا
نا آشنا ہے آج جو فنِ عروض سے
نخلِ ادب کا اُس کو ثمر کہہ دیا گیا
بزمِ ادب میں جس کے ترنم کی دھوم ہے
اس خوشنوا کو مِثلِ جگرؔ کہہ دیا گیا
روشن دماغ تھے جو وہ گوشہ نشیں رہے
جو تیرہ دل تھا نورِ سحر کہہ دیا گیا
اب کررہے ہیں چہرۂ تاریخ مسخ وہ
جو میرا گھر تھا اپنا وہ گھر کہہ دیا گیا
صدیوں سے سجدہ گاہ تھاجو مومنین کی
اُس خانۂ خدا کو کھنڈرکہہ دیا گیا
ہے محتسب کو خوب مہارت حساب میں
تھا جو صفر اسے بھی گُہر کہہ دیا گیا
طرزِ عمل سے اپنے تھا برقیؔ سیاہ قلب
جس خوبرو کو شمس و قمر کہہ دیا گیا