غزل: نذر حسرت موہانیؔ
احمد علی برقیؔ اعظمی
ہم نہیں بھولے ابھی تک وہ فسانہ یاد ہے
ؔ ؔ ؔ ؔ ’’ ہم کو اب تک عاشقی کا زمانہ یاد ہے ‘‘
لوحِ دل پر آج بھی ہیں نقش یادوں کے نقوش
کرکے وعدہ اور نہ آنے کا بہانہ یاد ہے
شوخئ رفتار اور گفتار بھی ہے ذہن میں
تیری دُزدیدہ نگاہی کا نشانہ یاد ہے
چھاؤں تھی جس کی سکونِ دل کا باعث جو کبھی
تیری زلفوں کا وہ دلکش شامیانہ یاد ہے
تھا نشاط و کیف کا سامان جو میرے لئے
روح پرور اور سنجیدہ ترانہ یاد ہے
ہے مشامِ جاں معطر آج بھی اس سے مری
گلشنِ ہستی میں تیرا گُل کھلانا یاد ہے
تھا نشاط روح تیرا ہر عمل میرے لئے
تیرا آ آ کر وہ خوابوں میں ستانا یاد ہے
میں ترا طرزِ تغافل بھی کبھی بھولا نہیں
میرا وہ صبر و تحمل آزمانا یاد ہے
آج جو ویراں ہے وہ پہلے کبھی آباد تھا
خانۂ دل میں مرے تیرا ٹھکانہ یاد ہے
مُرتَعِش ہو جاتا تھا جس سے مرا تارِ حیات
تیرا زیرِ لب مجھے وہ مُسکرانا یاد ہے
عشوہ و ناز و ادا تیرے ہوں جیسے کل کی بات
چال مجھ کو اب بھی تیری شاطرانہ یاد ہے
تیرا وہ مجھ پھیر لینا دیکھ کر اکثر مجھے
پُشت پر جیسے ہو کوئی تازیانہ یاد ہے
مُندمِل ہوتا نہیں ہے زخمِ دل یہ کیا کروں
تیری اب بھی وہ نگاہِ قاتلانہ یاد ہے
رنگِ حسرتؔ ؔ اور جگرؔ میں کیا لکھے کوئی غزل
اہلِ دل کو اُن کا حُسنِ شاعرانہ یاد ہے
آج بھی بھولا نہیں ہے کچھ بھی برقیؔ اعظمی
تیرا جانا یاد ہے میرا بُلانا یاد ہے
احمد علی برقیؔ اعظمی
ہم نہیں بھولے ابھی تک وہ فسانہ یاد ہے
ؔ ؔ ؔ ؔ ’’ ہم کو اب تک عاشقی کا زمانہ یاد ہے ‘‘
لوحِ دل پر آج بھی ہیں نقش یادوں کے نقوش
کرکے وعدہ اور نہ آنے کا بہانہ یاد ہے
شوخئ رفتار اور گفتار بھی ہے ذہن میں
تیری دُزدیدہ نگاہی کا نشانہ یاد ہے
چھاؤں تھی جس کی سکونِ دل کا باعث جو کبھی
تیری زلفوں کا وہ دلکش شامیانہ یاد ہے
تھا نشاط و کیف کا سامان جو میرے لئے
روح پرور اور سنجیدہ ترانہ یاد ہے
ہے مشامِ جاں معطر آج بھی اس سے مری
گلشنِ ہستی میں تیرا گُل کھلانا یاد ہے
تھا نشاط روح تیرا ہر عمل میرے لئے
تیرا آ آ کر وہ خوابوں میں ستانا یاد ہے
میں ترا طرزِ تغافل بھی کبھی بھولا نہیں
میرا وہ صبر و تحمل آزمانا یاد ہے
آج جو ویراں ہے وہ پہلے کبھی آباد تھا
خانۂ دل میں مرے تیرا ٹھکانہ یاد ہے
مُرتَعِش ہو جاتا تھا جس سے مرا تارِ حیات
تیرا زیرِ لب مجھے وہ مُسکرانا یاد ہے
عشوہ و ناز و ادا تیرے ہوں جیسے کل کی بات
چال مجھ کو اب بھی تیری شاطرانہ یاد ہے
تیرا وہ مجھ پھیر لینا دیکھ کر اکثر مجھے
پُشت پر جیسے ہو کوئی تازیانہ یاد ہے
مُندمِل ہوتا نہیں ہے زخمِ دل یہ کیا کروں
تیری اب بھی وہ نگاہِ قاتلانہ یاد ہے
رنگِ حسرتؔ ؔ اور جگرؔ میں کیا لکھے کوئی غزل
اہلِ دل کو اُن کا حُسنِ شاعرانہ یاد ہے
آج بھی بھولا نہیں ہے کچھ بھی برقیؔ اعظمی
تیرا جانا یاد ہے میرا بُلانا یاد ہے