’’ ہم پر تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے‘‘ : سخنداں عالمی ادبی فورم کے مصرعہ طرح ’’ ہم پر تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے‘‘ پر میری کاوش ۔ احمد علی برقی اعظمی
سخنداں عالمی ادبی فورم کے مصرعہ طرح ’’ ہم پر تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے‘‘ پر میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
آئے گا لوٹ کر وہ ابھی شام ہی تو ہے
بھیجا ہے جو وہ پیار کا پیغام ہی تو ہے
احمد علی برقی اعظمی
آئے گا لوٹ کر وہ ابھی شام ہی تو ہے
بھیجا ہے جو وہ پیار کا پیغام ہی تو ہے
وہ چشمِ مست میرے لئے جام ہی تو ہے
اس کی نگاہ بادۂ گلفام ہی تو ہے
اس کی نگاہ بادۂ گلفام ہی تو ہے
پہلے پہل ہوئی تھیں نگاہیں جہاں پہ چار
اس کی یہی وہ جلوہ گہہِ عام ہی تو ہے
اس کی یہی وہ جلوہ گہہِ عام ہی تو ہے
دیتی ہے آگے بڑھنے کا جو سب کو حوصلہ
اس زندگی میں حسرتِ ناکام ہی تو ہے
اس زندگی میں حسرتِ ناکام ہی تو ہے
اہلِ جہاں سے کچھ نہ ملے اس کا غم نہیں
اللہ کا یہ زندگی انعام ہی تو ہے
اللہ کا یہ زندگی انعام ہی تو ہے
ہوگا خدا کے فضل سے اک روز نیک نام
بدنام ہی سہی ابھی بدنام ہی تو ہے
بدنام ہی سہی ابھی بدنام ہی تو ہے
تیار کی ہے تم نے ابھی صرف فردِ جرم
’’ ہم پر تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے‘‘
’’ ہم پر تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے‘‘
کر لوں گا اپنے عزمِ مصمم سے اس کو زیر
کیا خوف اس سے گردشِ ایام ہی تو ہے
کیا خوف اس سے گردشِ ایام ہی تو ہے
وہ دیکھ تیرے سامنے منزل کا ہے نشاں
کیوں رک گئے قدم ترے اک گام ہی تو ہے
کیوں رک گئے قدم ترے اک گام ہی تو ہے
عقلِ سلیم دی ہے خدا نے یہ کس لئے
صیاد نے بچھایا ہے جو دام ہی تو ہے
صیاد نے بچھایا ہے جو دام ہی تو ہے
برقی کو اس کے کام سے سب جان جائیں گے
گمنام ہے جو شہر میں گمنام ہی تو ہے
گمنام ہے جو شہر میں گمنام ہی تو ہے