ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں : احمد علی برقی اعظمی
احمد علی برقی اعظمی غزل ۱۔
مجھ کو حق بات سے ہر گز کوئی انکار نہیں
قولِ ناحق کا میں کرتا کبھی اقرار نہیں
قولِ ناحق کا میں کرتا کبھی اقرار نہیں
سنگساری کا جو دستور ہے اجرا کرنا
پہلا پتھر وہی پھینکے جو گنہگار نہیں
پہلا پتھر وہی پھینکے جو گنہگار نہیں
حیثیت اُن کی ہے شطرنج کے مہروں کی طرح
خوابِ غفلت سے جو اس دور میں بیدار نہیں
خوابِ غفلت سے جو اس دور میں بیدار نہیں
وار پر وار پسِ پُشت کئے جاتے ہیں
دوست ہیں دشمنِ جاں اب مرے،اغیار نہیں
دوست ہیں دشمنِ جاں اب مرے،اغیار نہیں
بے وفائی کا وہی دیتے ہیں طعنہ مجھ کو
ملک و ملت کے کبھی بھی جو وفادار نہیں
ملک و ملت کے کبھی بھی جو وفادار نہیں
میر جعفر تو نہیں زندہ ہے اُس کی اولاد
کون کہتا ہے کہ ہم میں کوئی غدار نہیں
کون کہتا ہے کہ ہم میں کوئی غدار نہیں
فن کی تخلیق پہ حاوی ہےمزاجِ دوراں
وقت کا ساتھ جو دیتا نہ ہو ، فنکار نہیں
وقت کا ساتھ جو دیتا نہ ہو ، فنکار نہیں
فن کے معیار پہ پرکھیں گے سُخن کا جوہر
’’ہم سُخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘
’’ہم سُخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘
کہا مزہ ملتا ہے برقی کی دل آزاری میں
کیوں نہیں کرتا وہ اقرار اگر پیار نہیں
کیوں نہیں کرتا وہ اقرار اگر پیار نہیں
احمد علی برقی اعظمی ۔۔۔۔ غزل ۲۔
مجھ پہ جو گذری ہے وہ قابلِ اظہار نہیں
کون ہے اپنے جو حالات سے بیزار نہیں
کون ہے اپنے جو حالات سے بیزار نہیں
نظمِ عالم ہے جدھر دیکھئے درہم برہم
نوعِ انساں یہ کہاں برسرِ پیکار نہیں
نوعِ انساں یہ کہاں برسرِ پیکار نہیں
کس کی ہیں ریشہ دوانی کے سبھی لوگ شکار
سرنگوں آج سبھی ہیں کوئی سر دار نہیں
سرنگوں آج سبھی ہیں کوئی سر دار نہیں
مرزا غالب کے ہیں افکار سبھی پر غالب
قدرداں اُن کے میں فن کا ہوں،طرفدار نہیں
قدرداں اُن کے میں فن کا ہوں،طرفدار نہیں
جو دکھاتا ہے زمانے کو قلم کا جوہر
اُس سے بہتر مری نظروں میں قلمکار نہیں
اُس سے بہتر مری نظروں میں قلمکار نہیں
زیر کرتا ہے قلمکار قلم سے سب کو
لڑ رہا ہے وہ مگر ہاتھ میں تلوار نہیں
لڑ رہا ہے وہ مگر ہاتھ میں تلوار نہیں
زد میں ہے برق کی ہر وقت نشیمن برقی
جادۂ شوق میں بھی سایۂ دیوار نہیں
جادۂ شوق میں بھی سایۂ دیوار نہیں