کروں گا عرض مرا جو بھی مدعا ہوگا : احمد علی برقی اعظمی۔۔۔ نوشی گیلانی کے مصرعہ طرح پر بحر سخن کے ۲۶ ویں آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
بحر سخن کے ۲۶ویں آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
بتاٗؤں آپ کو پہلے سے کیوں کہ کیا ہوگا
کروں گا عرض مرا جو بھی مدعا ہوگا
کروں گا اپنے مسایل کا برملا اظہار
سناؤں گا اسے اس نے نہ جو سنا ہوگا
دکھاؤں اپنے قیافہ شناس کو کیوں ہاتھ
رہے گا ہوکے وہ قسمت میں جو لکھا ہوگا
ذرا سی ہوگی اگر اس کو اُنسیت مجھ سے
مری ہی طرح وہ راتوں کو جاگتا ہوگا
اُتَر کے آئے گا ملنے وہ بامِ شہرت سے
جو ملنا ہوگا اسے مجھ سے رونما ہوگا
وہاں کروں گا میں راز و نیاز کی باتیں
’’ جہاں خدا سے کسی شب مکالمہ ہوگا ‘‘
رگِ گلو سے بھی اپنی قریب ہے جو خدا
اسے میں دیکھوں نہ دیکھوں وہ دیکھتا ہوگا
ہے جس میں جذبۂ اخلاص دوستوں کے لئے
وہ حالِ زار سے برقی کے آشنا ہوگا
بحر سخن کے ۲۶ویں آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
ہے جیسا میرا کسی کا نہ ماجرا ہوگا
کلام ہو گیا ضایع جو اس کا کیا ہوگا
میں ’’ ہارڈ ڈسک ‘‘ سے ’’ پی سی‘‘ کی ہاتھ دھو بیٹھا
بڑا نہ اس سے کوئی اور سانحہ ہوگا
غزل میں سوز دروں دیکھ کر مرا بولے
کلام جس کا ہے یہ کوئی دل جلا ہوگا
چراغ دل میں مرے جس کی لو ہے اب مدھم
نگاہِ شوق کا بجھتا ہوا دیا ہوگا
ملی نہ منزلِ مقصود جس کو جیتے جی
دیارِ شوق میں بے موت مَر گیا ہوگا
مجھے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا ببانگِ دُہَل
جواب سن کے مرا وہ چراغ پا ہوگا
جو جنگ کرتا ہے لوگوں سے لے کے امن کا نام
کہیں وہ مُہرۂ شطرنج چل رہا ہوگا
جو حال ہے مرا سوزِ دروں سے اے برقی
نہ بند ایسا کسی کا بھی ناطقہ ہوگا