’’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ :موجِ سخن کے ۴۳ ویں عالمی آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش:احمد علی برقی اعظمی
موج سخن کے ۴۳ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
عبور کرنا ہے جو وہ ندی نہیں آئی
’’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘
’’ چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘
جو پہلے میری روش تھی اسی پہ قایم ہوں
مری وفاؤں میں اب تک کمی نہیں آئی
مری وفاؤں میں اب تک کمی نہیں آئی
تھا اُس کا وعدۂ فردا مرے لئے جانسوز
مجھے تھی جس کی تمنا کبھی نہیں آئی
مجھے تھی جس کی تمنا کبھی نہیں آئی
جو میری بیخ کنی کرتا ہے پسِ پردہ
اسے نبھانا کبھی دوستی نہیں آئی
اسے نبھانا کبھی دوستی نہیں آئی
ہے صبر آزما اب اور انتظار مجھے
جسے سمجھتا تھا میں زندگی نہیں آئی
جسے سمجھتا تھا میں زندگی نہیں آئی
ہمیشہ کرتا ہے یوں تو وہ صلح کی باتیں
امید جس کی تھی وہ آشتی نہیں آئی
امید جس کی تھی وہ آشتی نہیں آئی
وہ سبز باغ دکھاتا ہے اس کا روز مجھے
مگر وصال کی اب تک گھڑی نہیں آئی
مگر وصال کی اب تک گھڑی نہیں آئی
ہمیشہ دیکھ کے ہنستا ہے حالِ زار مرا
نگاہِ ناز میں اس کی نمی نہیں آئی
نگاہِ ناز میں اس کی نمی نہیں آئی
لکھا ہے ٹھوکریں کھانا مرے مقدر میں
اسی لئے مجھے منزل رسی نہیں آئی
اسی لئے مجھے منزل رسی نہیں آئی
بہار میں بھی نمایاں خزاں کے ہیں آثار
شگفتہ گلشنِ دل میں کلی نہیں آئی
شگفتہ گلشنِ دل میں کلی نہیں آئی
بھٹکتا رہتا ہوں میں تیرگی کی راہوں میں
جو رہنما ہو مری، روشنی نہیں آئی
جو رہنما ہو مری، روشنی نہیں آئی
ضروری خونِ جگر ہے سخنوری کے لئے
وہ شعر کہتے ہیں پر شاعری نہیں آئی
وہ شعر کہتے ہیں پر شاعری نہیں آئی
تمھاری قدر بھی برقی کریں گے بعد از مرگ
وہ کہہ رہے ہیں ابھی وہ صدی نہیں آئی
وہ کہہ رہے ہیں ابھی وہ صدی نہیں آئی