’’ وہ وفا و مِہر کی داستاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو ‘‘ : بزمِ سخن برطانیہ کے بیسویں عالمی طرحی مشاعرے ( اگست ۲۰۱۸) کے لئے میری طبع آزمائی مصرعہ طرح وہ وفا و مہر کی داستاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو ( عرشؔ ملسیانی ) احمد علی برقیؔ اعظمی
بزمِ سخن برطانیہ کے بیسویں عالمی طرحی مشاعرے ( اگست ۲۰۱۸) کے لئے میری طبع آزمائی
مصرعہ طرح وہ وفا و مہر کی داستاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو ( عرشؔ ملسیانی )
احمد علی برقیؔ اعظمی
میرے ہمنشیں مرے رازداں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے کہہ رہا تھا تو جانِ جاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے یاد ہے مرے مہرباں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
’’ وہ وفا و مِہر کی داستاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو ‘‘
ہے اُسی طرح سے وہ ضوفشاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ تھی آسماں پہ جو کہکشاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جو مِلا رہا تھا تو ہاں میں ہاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مرے صبرکا نہ لے امتحاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مری لوحِ دل پہ ہے مُرتسم وہ زمین اور وہ آسماں
تو مِلا تھا مجھ سے جہاں جہاں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تو یہ اپنی زلف سے پوچھ لے جو گواہ ہے مرے قول کی
مرے سر کا تھی کبھی سائباں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ترے حافظے کو یہ کیا ہو ذرا اپنے ذہن پہ زور دے
میں ترا تو میرا تھا پاسباں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تو مَرَض کا اپنے علاج کر کسی جانے مانے طبیب سے
کبھی تجھ سے میں نہ تھا بدگماں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مجھے یاد تھا مجھے یاد ہے تجھے بھولنا ہے تو بھول جا
ہے جو آج برقئؔ نوحہ خواں تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو