’’ وہ سانپ جس کو مری آستیں میں پلنا تھا‘‘ : دیا کے ۵۶ ویں آن لاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش : احمد علی برقی اعظمی
دیا کے ۵۶ ویں آن لاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
فریب اس نے دیا جس کا کام چھلنا تھا
اکیلا چھوڑ دیا جس کو ساتھ چلنا تھا
مرے نصیب میں لکھی تھی پرورش اس کی
’’ وہ سانپ جس کو مری آستیں میں پلنا تھا‘‘
میں اس کے وصل سے کس طرح بہرہ ور ہوتا
مجھے تو آتشِ فرقت میں یونہی جلنا تھا
نہ آئی کام مرے چارہ گر کی چارہ گری
بہل سکا نہ مرا دل جسے بہلنا تھا
تھپیڑے کھاتی رہی اس میں میری کشتیٔ عمر
مجھے تو موجِ حوادث میں رہ کے پلنا تھا
دبی ہے حسرتِ خوابیدہ آج بھی دل میں
مچل رہا ہے ابھی تک جسے مچلنا تھا
بکھر سکا نہ مری زندگی کا شیرازہ
دیارِ شوق میں گِر گِر کے یوں سنبھلنا تھا
ہے آج عہدِ رواں میں شکارِ دربدری
نظامِ گردشِ دوراں جسے بدلنا تھا
شعار وعدہ خلافی ہے اس کا اے برقی
بدلتا کیے نہ آخر جسے بدلنا تھا