لاؤں وہ تنکے کہاں سے آشیانے کے لئے بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لئے ۔۔۔۔ ایک زمین کئی شاعر شاعر مشرق علامہ اقبال اور احمد علی برقی اعظمی : بشکریہ ایک زمین کئی شاعر گروپ
ایک زمین کئی شاعر
شاعر مشرق علامہ اقبال اور احمد علی برقی اعظمی
شاعر مشرق علامہ اقبال
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جن کو جلانے کے لیے
وائے ناکامی فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملّت سے تری
ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے
دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں
لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے
جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چنُ کے تُو
آہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے
پاس تھا ناکامیٔ صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں اور اُڑ کے آتا ایک دانے کے لیے؟
اس چمن میں مرغِ دل گائے نہ آزادی کا گیت
آہ ! یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے
احمد علی برقی اعظمی
تختۂ مشقِ ستم ہو کیوں بنانے کے لئے
میں ہی تنہا رہ گیا تھا کیا ستانے کے لئے
کتنا لے گا امتحاں تو اور غیرت کا مری
میں گذر جاؤں گا حد سے تجھ کو پانے کے لئے
زد پہ ہردم برق کی کیوں ہے مرا ہی آشیاں
ہر کسی کو ہے ضرورت سر چُھپانے کے لئے
خون کے آنسو رُلائے گی تجھے یہ بے رخی
ٰایک دن آئے گا تو مجھ کو بُلانے کے لئے
اب منانے کے لئے آنا ترا بے سود ہے
تجھ سے یہ کس نے کہا تھا بھول جانے کے لئے
تیری یہ برقِ تجلی مارڈالے گی مجھے
تو تَرَس جائے گا اک دن مسکرانے کے لئے
شمعِ محفل نے جلایا پہلے پروانوں کو پھر
اب بہاتی ہے یہ آنسو بس دکھانے کے لئے
زندگی بھر کی کمائی کیوں کھٹکتی ہے تجھے
صرف کردی میں نے جو اک گھر بنانے کے لئے
چھوڑ کر اپنا وطن پردیس میں ہیں جو مقیم
مارے مارے پھر رہے ہے ہیں آب و دانے کے لئے
ہو گئے ہیں خشک آنسو روتے روتے اس لئے
مسکراتا ہوں میں اپنا غم بُھلانے کے لئے
خونِ دل اپنا جلایا زندگی کی دھوپ میں
تِنکہ تِنکہ جوڑ کر اک آشیانے کے لئے
اس کے آگے کیوں سرِ تسلیم اپنا خم کروں
تختۂ مشقِ ستم ہو کیوں بنانے کے لئے
میں ہی تنہا رہ گیا تھا کیا ستانے کے لئے
کتنا لے گا امتحاں تو اور غیرت کا مری
میں گذر جاؤں گا حد سے تجھ کو پانے کے لئے
زد پہ ہردم برق کی کیوں ہے مرا ہی آشیاں
ہر کسی کو ہے ضرورت سر چُھپانے کے لئے
خون کے آنسو رُلائے گی تجھے یہ بے رخی
ٰایک دن آئے گا تو مجھ کو بُلانے کے لئے
اب منانے کے لئے آنا ترا بے سود ہے
تجھ سے یہ کس نے کہا تھا بھول جانے کے لئے
تیری یہ برقِ تجلی مارڈالے گی مجھے
تو تَرَس جائے گا اک دن مسکرانے کے لئے
شمعِ محفل نے جلایا پہلے پروانوں کو پھر
اب بہاتی ہے یہ آنسو بس دکھانے کے لئے
زندگی بھر کی کمائی کیوں کھٹکتی ہے تجھے
صرف کردی میں نے جو اک گھر بنانے کے لئے
چھوڑ کر اپنا وطن پردیس میں ہیں جو مقیم
مارے مارے پھر رہے ہے ہیں آب و دانے کے لئے
ہو گئے ہیں خشک آنسو روتے روتے اس لئے
مسکراتا ہوں میں اپنا غم بُھلانے کے لئے
خونِ دل اپنا جلایا زندگی کی دھوپ میں
تِنکہ تِنکہ جوڑ کر اک آشیانے کے لئے
اس کے آگے کیوں سرِ تسلیم اپنا خم کروں
ہے خدا کے سامنے جو سر جُھکانے کے لئے
شامتِ اعمال تھی جو لے گئی مجھ کو وہاں
’’ ورنہ میں اور اُڑ کے جاتا ایک دانے کے لئے ‘‘
گُنگُناتے ہیں جسے ہر وقت برقی اعظمی
داد دیں اقبال کو قومی ترانے کے لئے
گُنگُناتے ہیں جسے ہر وقت برقی اعظمی
داد دیں اقبال کو قومی ترانے کے لئے