غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں ادبی نشست کا انعقاد
گزشتہ روز غالب اکیڈمی ،نئی دہلی میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت جی آر کنول نے کی ،انھوں نے کہا کہ ارسطو نے کہا تھا کہ تین گھنٹے سے زیادہ کوئی بھی ادبی جلسہ سننا مشکل ہے لیکن غالب اکیڈمی کی نشست میں شاعری کے ساتھ ساتھ مضامین افسانے بھی پڑھے جاتے ہیں جس سے طبعیت پر گرانی نہیں ہوتی جی چاہتا ہے نشست جاری ر ہے،نشست میں چشمہ فاروقی نے ابھاگن کے عنوان سے افسانہ پڑھا اور محمد خلیل نے سائنس فکشن کالی بلی پیش کیا۔بیس شعرا نے اپنے کلام سے سامعین محظوظ کیا۔ شعرا کے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔
ادب کے آسماں کو چھونے والے
کنول اردو زباں میں بھی بہت ہے
جی آر کنول
آگئی صبح طرب کی شام ‘ اچھا الوداع
ہر مسرت کا ہے غم انجام اچھا الوداع
وقارمانوی
دیکھ سکتا ہے کسی آنکھ میں آنسوکیسے
جس سے اترا ہوا چہرہ بھی نہ دیکھا جائے
ظہیر احمد برنی
ہوجائے گی حاصل مجھے تسکین نظر بھی
بیٹھا ہوں سرراہ کہ آؤ گے ادھر بھی
نسیم عباسی
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
یہ مکاں رات کو پھر گھر میں بدل جاتا ہے
ڈاکٹر فریاد آزر
ہزار کانٹوں میں کھلتے گلاب کی صورت
ہم ایسے لوگ ہی کچھ باکمال زندہ ہیں
ظفر مراد آبادی
تھا کبھی حاشیہ بردار جو اپنا برقی
جب وہ دینے لگے خیرات تو دکھ ہوتا ہے
احمد علی برقی اعظمی
ابھی گو میں نے پہنچانی نہیں ہے
مگر آواز انجانی نہیں ہے
متین امروہوی
ستم ڈھانا کبھی مظلوم پر اچھا نہیں ہوتا
جوطاقت ظلم ڈھاتی ہے دھراشائی بھی ہوتی ہے
عزم سہریاوی
بزرگوں نے کبھی بنیاد کی جانب نہیں دیکھا
نتیجے میں ہم اپنے گھر کے آثاروں سے ڈرتے ہیں
شاہد انور
کل جو آئے تھے میری دعوت میں
کر رہے ہیں وہی عداوت اب
اسد رضا
ڈھونڈتی ہوگی ہمیں خاموشی
بچے جب شور مچاتے ہوں گے
دویا جین
ترک تعلقات کا اک فائدہ ہوا
اب جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں رہی
اسرار رازی
کرتا تھا شاہ کو سلام، ملنا تھا کچھ انعام و نام
میں تھا فقیر بے نیاز میں نے بھی ہاں نہیں کہا
فروغ الاسلام
چل کر زمیں سے چاند بھی ہم چھو کے آگئے
کوئی بھی کام آج کل مشکل نہیں رہا
نزاکت امروہوی
جب بھی دریا کے پاس پہنچا ہوں
لوٹ آیا ہوں ہونٹ تر کرکے
سیف الدین سیف
موج ساگروں کی بچا لاتی ہیں اکثر کشتیاں
اور پھر ساگر ہی کشتیاں نگل جاتا ہے
رضیہ حیدر خان
اندھیروں میں اجالوں کی کمی محسوس ہوتی ہے
ہمیشہ ہم خیالوں کی کمی محسوس ہوتی ہے
حاذق،حاذق
نشست میں ونے،محمد انس فیضی،ڈاکٹر شہلا احمد نے اپنے کلام پیش کئے۔