شعری مجموعہ ” روحِ سُخن ” شاعر: ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ( اجمالی جائزہ ) اسلم چشتی ( پونے )
شعری مجموعہ ” روحِ سُخن ” شاعر: ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ( اجمالی جائزہ )
اسلم چشتی ( پونے )
اسلم چشتی ( پونے )
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی اعظم گڈھ ( یو پی ) کے ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں – ان کے والدِ محترم رحمت الہٰی برق اعظمی اعلٰی تعلیم یافتہ سرکاری ملازم تھے – ادبی دنیا میں نام تھا دبستانِ داغ دہلوی سے تعلق نوح ناروی کے توسط سے رہا ہے – قابل باپ برق اعظمی کے لائق سپوت برقی اعظمی نے بھی میدانِ ادب میں خوب نام کمایا – بزرگوں کی ہدایتوں پر چلنا ان کے کام آیا تبھی تو انھیں روحِ سُخن کو چھونے کا شعور آیا – برقی اعظمی مسلسل مشقِ سُخن کے عادی ہیں -مشق نے انھیں اپنے سُخن میں کمال عطا کردیا عرصۂ دراز سے شاعری کر رہے ہیں لیکن ان کا کوئی مجموعۂ کلام شایع نہیں ہُوا تھا، تخلیق کار پبلیکیشن دہلی نے ” روحِ سُخن ” کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شایع کیا ہے – کتاب کی پشت پر پبلیکیشن کے روحِ رواں انیس امروہوی کی رائے چھپی ہے -اسکا ایک اقتباس مُلاحظہ فرمائیں -***
” برقی اعظمی کو ۱۵ برس کی عمر سے شعر گوئی کا ذوق و شوق رہا ہے – ان کی خاص دلچسپی جدید سائنس میں انٹرنیٹ اور خاص طور پر اُردو کی ویب سائٹس سے جنون کی حد تک ہے – اُردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہتے ہیں – فی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں بھی آپ کو ملکہ حاصل ہے – ” روحِ سُخن ” احمد علی برقی اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے "-***
” روحِ سُخن ” 464 صفحات کی ضخیم کتاب ہے – اس میں ۱۱۱ صفحات پر مُشاہرِ ادب کے برقی اعظمی کے فکروفن اور شخصیت پر مضامین شامل ہیں – سبھی نے برقی کی جائز تعریف سلیقگی سے کی ہے – ابتدائی صفحات کے کچھ اقتباسات مُلاحظہ فرمائیں -*
"جناب برقی اعظمی کی خوش فکری اور خوش کلامی
میں اگر ایک طرف ان کی خاندانی ادبی روایت کا حصّہ رہا ہے تو دوسری طرف انھوں نے اپنے عہد کے عصری تقاضوں سے اکتسابِ فیض کیا ہے، اور اس لئے ان کی شاعری حدیث حسن بھی ہے اور حکایتِ روزگار بھی "
( ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد لکھنؤ انڈیا )
” روحِ سُخن ” اُردو غزلیہ شاعری میں ایک بیش بہا اضافہ ہے – یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ برقی صاحب کی شاعری غزل میں نئے تجربوں کی طرف اچھّی پیش قدمی ہے "
( سرور عالم راز سرور ) امریکہ
” آپ ہیئت اور موضوع دونوں اعتبار سے روایت کا دامن تھامے دکھائی دیتے ہیں، مجاز سے حقیقت کی جہت میں سفر اُردو شاعری کی پہچان رہی ہے ،اسی لئے شاعر کا ذہن بھی اسی حقیقت کو موضوعِ اظہار بناتا ہے "
( مظفر احمد مظفر ) انگلینڈ
” آج وہ شاید واحد شاعر ہیں جو انٹرنیٹ اور سوشل سائنس کی مدد سے دُنیا کے مُختلف حصّوں میں معروف و مقبول ہیں "
( عبدالحئی: اسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا نئی دہلی )
” جناب برقی اعظمی نئے عہد کے شاعر ہیں اور پوری تعلیم بھی یو نیورسٹیوں اور کالجوں میں ہُوئی ہے- لیکن ان کی علمی و ادبی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر اپنی تہذیب و روایت سے دامن کش نہیں ہوتے "
( ڈاکٹر تابش مہدی ) انڈیا
ڈاکٹر احمد علی برقی صاحب کا بہترین مجموعۂ کلام ” روحِ سُخن ” اپنی آب و تاب کے ساتھ منظرِ عام پر آگیا ہے جو قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ داد بھی "
( سیّد ضیاء خیرآبادی ) امریکہ
” ڈاکٹر احمد علی برقی کا تخلیقی سفر خلوص اور مُحبّت کے گیت گاتا ہُوا نفرت کی دیواروں کو توڑتا ہوا ، ملکوں کی سرحدوں کو پار کرتا ہوا ، انسانیت اور تہذیب کے وقار کو بڑھاتا ہوا ، امن اور شانتی کا درس دیتا ہوا ، حق کا پرچم اُٹھائے دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے "
( ڈاکٹر سیّدہ عمرانہ نشتر خیر آبادی) امریکہ
یہ تو خیر کچھ مضامین کے مختصر اقتباسات ہیں اس طرح کے تحسینی کلمات میں ان کی شاعری کے کئی ایک پہلو دیگر مضامین کی تحریروں میں جگہ جگہ روشن ہیں – اب برقی اعظمی کی غزلیہ شاعری سے کچھ اشعار مُلاحظہ فرمائیں -***
نہ دیتے گر ہمیں اقبال درسِ فکروعمل
تو ہوتا حال زبوں اپنا اور عبرت ناک
رفتہ رفتہ ہوں گے یہ حالات تیرے سازگار
یہ خزاں اک دن بہارِ جاوداں ہو جائے گی
میرا سرمایا ہے دیرینہ رفاقت ان کی
اُسے غیروں پہ لُٹاؤں تو لُٹاؤں کیسے
حالات مساعد نہیں رہتے ہیں ہمیشہ
ہموار نہیں راہ تو ہموار کےء جا
آپ کے ساتھ اگر کوئی کرے حُسنِ سلوک
آپ بھی حُسنِ عمل اس سے نبھانے لگ جائیں
لوحِ دل پر مُرتسم ہیں یہ جو یادوں کے نقوش
سوچتا ہوں کیا لکھوں ، کیسے لکھوں اور کیوں لکھوں
برقی کی غزلیہ شاعری میں جس شعری روئیے اور مواد کے
اشعار ہیں ان کی نمائندگی مندرجہ بالا اشعار کرتے ہیں -مطلب یہ کہ مُحبّت کے ہمہ پہلوؤں کو پیش کرنے والے اشعار بھی اس کتاب میں مل جائیں گے اور اخلاقیات اور انسانیت کے اعلٰی اقدار کی باتیں بھی سامنے آجاتی ہیں اور ہمّت اور حوصلہ دلاکر زندگی کے اندھیروں سے نمٹنے کی ترغیب دینے والے اشعار بھی ” روحِ سُخن ” کا حصّہ ہیں – غرض برقی کی غزلیہ شاعری زندگی کے خمیر سے اُٹھی ہے جو اپنے عہد کے ضمیر کی آواز ہے یہ بات ان کی غزلیہ شاعری کے ہر شعر پر صد فی صد صادق نہیں آتی لیکن بیشتر اشعار میں اس کی جھلک اور جلوے نظر آتے ہیں -***
برقی برق رفتاری سے شعر گوئی کے عادی ہیں – ایسے شاعر سے یک رُخی ، یک رنگی شاعری کی اُمّید رکھنا فضول ہے کیونکہ برقی کی شعری سوچ زمانے کے حالات کی بدلتی ہوئی تصویریں اخذ کرنے میں لگی رہتی ہیں اور پھر ذات کا اندرونی و بیرونی درد ، کرب ، المیہ اور نشاطی لمحاتی کیفیات کو بھی چھونا چاہتی ہے تو ایسے میں جو سوچ کے نتائج سامنے آتے ہیں وہ برقی کی شاعری میں پناہ لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ برقی کے ہاں زندگی کی ہمہ رنگی ہے – جذبوں کی سبک روانی ہے – خیالات کی ضوفشانی ہے -***
برقی اور ان کی شاعری سے میں عرصے سے متعارف ہوں -گاہے گاہے انٹرنیٹ فیس بُک اور صفحۂ قرطاس پر ان کے کلام کو پڑھنے کا موقع ملتا رہتا ہے – ان کے کلام میں مجھے جو بے ساختگی نظر آتی ہے وہ انھیں سچّا شاعر ثابت کرتی ہے – گو کہ ان کے اس مجموعے میں زیادہ تر غزلیں طرحی ہیں اور طرحی غزلوں میں اگر شاعر اپنے سُخن کی روح نہ قائم کر سکے تو طرحی غزل بے رنگ اور بے روح ہو جاتی ہے اس بات کا شعور برقی کو ہے – مصرعہ چاہے اساتـذہ کا ہو یا کسی نئے پرانے شاعر کا وہ اپنا رنگ اپنا تیور اور اپنی زبان ضرور رکھتا ہے اور اس پر کوئی شعر کہتا ہےتو طرحی مصرعہ کے اوصاف در آتے ہیں لیکن برقی ان شاعروں میں سے ہیں جو طرح پر بھی غزل کہیں گے تو اپنے ہی لہجے اور اپنے ہی رنگ میں اور یہ کام مشّاق شاعر ہی کر سکتا ہے – طرح پر کہی ہوئی غزلوں میں ان کا گرہ لگانے کا ہُنر دیکھئے اور داد دیجےء -***
سُناؤں کیسے میں حالِ زبوں زمانے کو
” رہا نہ لب پہ کوئی ماجرا سُنانے کو "
یہ بچّے آجکل بالغ نظر ہیں وقت سے پہلے
” تو مِٹّی کے کھلونوں سے انہیں بہلائےگا کیسے "
شامت اعمال میری مجھکو لے آئی وہاں
” ہائے کیسی اس بھری محفل میں رسوائی ہوئی "
مجھ سے دانستہ ہوئی کوئی خطا یاد نہیں
” جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں "
دیوانہ وار بڑھتے ہیں اس کی طرف قدم
” لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں "
جن میں کوئی بھی نہیں ہے آدمیت کا نشاں
” جانے کس بُنیاد پر انسان کہلاتے ہیں لوگ "
طرحی مصرعوں پر مصرعہ لگانے یا مصرعہ پہنچانے کی یہ مثالیں برقی اعظمی کے مشّاق ہونے کی دلیلیں پیش کرتی ہیں کہ برقی نے گویا طرحی مصرعے کو اپنا لیا ہے – یہ بھی فنکاری ہے – برقی اس فن میں بھی ماہر نظر آتے ہیں کہ ہر طرحی غزل کو برقی نے اپنا لہجہ دیا ہے اپنی بات کہی ہے -***
” روحِ سُخن ” میں درجنوں غزلیں مُختلف بحور میں ہیں – ان کے مخصوص مزاج کی کوئی بحر گرفت میں نہیں آتی، برقی شعر کی خیال بندی ، فضا بندی کے لحاظ سے بحر کا انتخاب کرتے ہیں اور شعر کہتے ہیں – اس کتاب میں غزلیہ شاعری اپنے قاری کو مُطمئین کرنے کے اوصاف رکھتی ہے – غزل کے علاوہ اس کتاب میں ” یادِ رفتگاں ” کے عنوان سے مرحوم معتبر و مشہور شعراء کے فن پر غزل کے فارم میں نظمیں شایع کی گئی ہیں بہت ہی احترام ، عقیدت اور مُحبّت سے کہی گئی یہ نظمیں متعلقہ شعراء کے رُتبے اور فن کی پُختگی کو اُجاگر کرتی ہیں – برقی اعظمی نے اپنی پسند اور ترجیحات کے مطابق علامہ اقبال ، اصغر گونڈوی ، فراق گورکھپوری، الطاف حُسین حالی ، ابنِ انشاء ، جگر مراد آبادی، ابنِ صفی ، جوش ملیح آبادی، کیفی اعظمی ، اسرار الحق مجاز، مجروح سلطانپوری، ناصر کاظمی ، نظیر اکبر آبادی ، پروین شاکر ، شاد عظیم آبادی ، شکیل بدایونی، شبلی نعمانی کے فنی کمالات پر شعری زبان میں داد و تحسین سے نوازا ہے – یہ برقی کی کشادہ دلی ہے، فن شناسی اور بزرگوں کی قدردانی کا ثبوت ہے -***
” روحِ سُخن ” ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کے کلام کا خوبصورت گلدستہ ہے – اس کی ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوگی – اس یقین کے ساتھ میں اپنی بات برقی کے ہی ایک شعر پر ختم کرتا ہوں -***
ہے رودادِ دل یہ غزل کے بہانے
کوئی اس حقیقت کو مانے نہ مانے
Aslam chishti flat no 404, shaan riviera aprt 45/2 riviera society wanowrie near jambhulkar garden pune maharashtra 411040
09326232141 / 09422006327
” برقی اعظمی کو ۱۵ برس کی عمر سے شعر گوئی کا ذوق و شوق رہا ہے – ان کی خاص دلچسپی جدید سائنس میں انٹرنیٹ اور خاص طور پر اُردو کی ویب سائٹس سے جنون کی حد تک ہے – اُردو اور فارسی میں یکساں مہارت کے ساتھ غزل کہتے ہیں – فی البدیہہ اور موضوعاتی شاعری میں بھی آپ کو ملکہ حاصل ہے – ” روحِ سُخن ” احمد علی برقی اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے "-***
” روحِ سُخن ” 464 صفحات کی ضخیم کتاب ہے – اس میں ۱۱۱ صفحات پر مُشاہرِ ادب کے برقی اعظمی کے فکروفن اور شخصیت پر مضامین شامل ہیں – سبھی نے برقی کی جائز تعریف سلیقگی سے کی ہے – ابتدائی صفحات کے کچھ اقتباسات مُلاحظہ فرمائیں -*
"جناب برقی اعظمی کی خوش فکری اور خوش کلامی
میں اگر ایک طرف ان کی خاندانی ادبی روایت کا حصّہ رہا ہے تو دوسری طرف انھوں نے اپنے عہد کے عصری تقاضوں سے اکتسابِ فیض کیا ہے، اور اس لئے ان کی شاعری حدیث حسن بھی ہے اور حکایتِ روزگار بھی "
( ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد لکھنؤ انڈیا )
” روحِ سُخن ” اُردو غزلیہ شاعری میں ایک بیش بہا اضافہ ہے – یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ برقی صاحب کی شاعری غزل میں نئے تجربوں کی طرف اچھّی پیش قدمی ہے "
( سرور عالم راز سرور ) امریکہ
” آپ ہیئت اور موضوع دونوں اعتبار سے روایت کا دامن تھامے دکھائی دیتے ہیں، مجاز سے حقیقت کی جہت میں سفر اُردو شاعری کی پہچان رہی ہے ،اسی لئے شاعر کا ذہن بھی اسی حقیقت کو موضوعِ اظہار بناتا ہے "
( مظفر احمد مظفر ) انگلینڈ
” آج وہ شاید واحد شاعر ہیں جو انٹرنیٹ اور سوشل سائنس کی مدد سے دُنیا کے مُختلف حصّوں میں معروف و مقبول ہیں "
( عبدالحئی: اسٹنٹ ایڈیٹر، اُردو دُنیا نئی دہلی )
” جناب برقی اعظمی نئے عہد کے شاعر ہیں اور پوری تعلیم بھی یو نیورسٹیوں اور کالجوں میں ہُوئی ہے- لیکن ان کی علمی و ادبی تربیت کچھ ایسی ہوئی ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر اپنی تہذیب و روایت سے دامن کش نہیں ہوتے "
( ڈاکٹر تابش مہدی ) انڈیا
ڈاکٹر احمد علی برقی صاحب کا بہترین مجموعۂ کلام ” روحِ سُخن ” اپنی آب و تاب کے ساتھ منظرِ عام پر آگیا ہے جو قابلِ دید بھی ہے اور قابلِ داد بھی "
( سیّد ضیاء خیرآبادی ) امریکہ
” ڈاکٹر احمد علی برقی کا تخلیقی سفر خلوص اور مُحبّت کے گیت گاتا ہُوا نفرت کی دیواروں کو توڑتا ہوا ، ملکوں کی سرحدوں کو پار کرتا ہوا ، انسانیت اور تہذیب کے وقار کو بڑھاتا ہوا ، امن اور شانتی کا درس دیتا ہوا ، حق کا پرچم اُٹھائے دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے "
( ڈاکٹر سیّدہ عمرانہ نشتر خیر آبادی) امریکہ
یہ تو خیر کچھ مضامین کے مختصر اقتباسات ہیں اس طرح کے تحسینی کلمات میں ان کی شاعری کے کئی ایک پہلو دیگر مضامین کی تحریروں میں جگہ جگہ روشن ہیں – اب برقی اعظمی کی غزلیہ شاعری سے کچھ اشعار مُلاحظہ فرمائیں -***
نہ دیتے گر ہمیں اقبال درسِ فکروعمل
تو ہوتا حال زبوں اپنا اور عبرت ناک
رفتہ رفتہ ہوں گے یہ حالات تیرے سازگار
یہ خزاں اک دن بہارِ جاوداں ہو جائے گی
میرا سرمایا ہے دیرینہ رفاقت ان کی
اُسے غیروں پہ لُٹاؤں تو لُٹاؤں کیسے
حالات مساعد نہیں رہتے ہیں ہمیشہ
ہموار نہیں راہ تو ہموار کےء جا
آپ کے ساتھ اگر کوئی کرے حُسنِ سلوک
آپ بھی حُسنِ عمل اس سے نبھانے لگ جائیں
لوحِ دل پر مُرتسم ہیں یہ جو یادوں کے نقوش
سوچتا ہوں کیا لکھوں ، کیسے لکھوں اور کیوں لکھوں
برقی کی غزلیہ شاعری میں جس شعری روئیے اور مواد کے
اشعار ہیں ان کی نمائندگی مندرجہ بالا اشعار کرتے ہیں -مطلب یہ کہ مُحبّت کے ہمہ پہلوؤں کو پیش کرنے والے اشعار بھی اس کتاب میں مل جائیں گے اور اخلاقیات اور انسانیت کے اعلٰی اقدار کی باتیں بھی سامنے آجاتی ہیں اور ہمّت اور حوصلہ دلاکر زندگی کے اندھیروں سے نمٹنے کی ترغیب دینے والے اشعار بھی ” روحِ سُخن ” کا حصّہ ہیں – غرض برقی کی غزلیہ شاعری زندگی کے خمیر سے اُٹھی ہے جو اپنے عہد کے ضمیر کی آواز ہے یہ بات ان کی غزلیہ شاعری کے ہر شعر پر صد فی صد صادق نہیں آتی لیکن بیشتر اشعار میں اس کی جھلک اور جلوے نظر آتے ہیں -***
برقی برق رفتاری سے شعر گوئی کے عادی ہیں – ایسے شاعر سے یک رُخی ، یک رنگی شاعری کی اُمّید رکھنا فضول ہے کیونکہ برقی کی شعری سوچ زمانے کے حالات کی بدلتی ہوئی تصویریں اخذ کرنے میں لگی رہتی ہیں اور پھر ذات کا اندرونی و بیرونی درد ، کرب ، المیہ اور نشاطی لمحاتی کیفیات کو بھی چھونا چاہتی ہے تو ایسے میں جو سوچ کے نتائج سامنے آتے ہیں وہ برقی کی شاعری میں پناہ لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ برقی کے ہاں زندگی کی ہمہ رنگی ہے – جذبوں کی سبک روانی ہے – خیالات کی ضوفشانی ہے -***
برقی اور ان کی شاعری سے میں عرصے سے متعارف ہوں -گاہے گاہے انٹرنیٹ فیس بُک اور صفحۂ قرطاس پر ان کے کلام کو پڑھنے کا موقع ملتا رہتا ہے – ان کے کلام میں مجھے جو بے ساختگی نظر آتی ہے وہ انھیں سچّا شاعر ثابت کرتی ہے – گو کہ ان کے اس مجموعے میں زیادہ تر غزلیں طرحی ہیں اور طرحی غزلوں میں اگر شاعر اپنے سُخن کی روح نہ قائم کر سکے تو طرحی غزل بے رنگ اور بے روح ہو جاتی ہے اس بات کا شعور برقی کو ہے – مصرعہ چاہے اساتـذہ کا ہو یا کسی نئے پرانے شاعر کا وہ اپنا رنگ اپنا تیور اور اپنی زبان ضرور رکھتا ہے اور اس پر کوئی شعر کہتا ہےتو طرحی مصرعہ کے اوصاف در آتے ہیں لیکن برقی ان شاعروں میں سے ہیں جو طرح پر بھی غزل کہیں گے تو اپنے ہی لہجے اور اپنے ہی رنگ میں اور یہ کام مشّاق شاعر ہی کر سکتا ہے – طرح پر کہی ہوئی غزلوں میں ان کا گرہ لگانے کا ہُنر دیکھئے اور داد دیجےء -***
سُناؤں کیسے میں حالِ زبوں زمانے کو
” رہا نہ لب پہ کوئی ماجرا سُنانے کو "
یہ بچّے آجکل بالغ نظر ہیں وقت سے پہلے
” تو مِٹّی کے کھلونوں سے انہیں بہلائےگا کیسے "
شامت اعمال میری مجھکو لے آئی وہاں
” ہائے کیسی اس بھری محفل میں رسوائی ہوئی "
مجھ سے دانستہ ہوئی کوئی خطا یاد نہیں
” جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں "
دیوانہ وار بڑھتے ہیں اس کی طرف قدم
” لے جا رہا ہے شوق چلا جا رہا ہوں میں "
جن میں کوئی بھی نہیں ہے آدمیت کا نشاں
” جانے کس بُنیاد پر انسان کہلاتے ہیں لوگ "
طرحی مصرعوں پر مصرعہ لگانے یا مصرعہ پہنچانے کی یہ مثالیں برقی اعظمی کے مشّاق ہونے کی دلیلیں پیش کرتی ہیں کہ برقی نے گویا طرحی مصرعے کو اپنا لیا ہے – یہ بھی فنکاری ہے – برقی اس فن میں بھی ماہر نظر آتے ہیں کہ ہر طرحی غزل کو برقی نے اپنا لہجہ دیا ہے اپنی بات کہی ہے -***
” روحِ سُخن ” میں درجنوں غزلیں مُختلف بحور میں ہیں – ان کے مخصوص مزاج کی کوئی بحر گرفت میں نہیں آتی، برقی شعر کی خیال بندی ، فضا بندی کے لحاظ سے بحر کا انتخاب کرتے ہیں اور شعر کہتے ہیں – اس کتاب میں غزلیہ شاعری اپنے قاری کو مُطمئین کرنے کے اوصاف رکھتی ہے – غزل کے علاوہ اس کتاب میں ” یادِ رفتگاں ” کے عنوان سے مرحوم معتبر و مشہور شعراء کے فن پر غزل کے فارم میں نظمیں شایع کی گئی ہیں بہت ہی احترام ، عقیدت اور مُحبّت سے کہی گئی یہ نظمیں متعلقہ شعراء کے رُتبے اور فن کی پُختگی کو اُجاگر کرتی ہیں – برقی اعظمی نے اپنی پسند اور ترجیحات کے مطابق علامہ اقبال ، اصغر گونڈوی ، فراق گورکھپوری، الطاف حُسین حالی ، ابنِ انشاء ، جگر مراد آبادی، ابنِ صفی ، جوش ملیح آبادی، کیفی اعظمی ، اسرار الحق مجاز، مجروح سلطانپوری، ناصر کاظمی ، نظیر اکبر آبادی ، پروین شاکر ، شاد عظیم آبادی ، شکیل بدایونی، شبلی نعمانی کے فنی کمالات پر شعری زبان میں داد و تحسین سے نوازا ہے – یہ برقی کی کشادہ دلی ہے، فن شناسی اور بزرگوں کی قدردانی کا ثبوت ہے -***
” روحِ سُخن ” ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کے کلام کا خوبصورت گلدستہ ہے – اس کی ادبی حلقوں میں پذیرائی ہوگی – اس یقین کے ساتھ میں اپنی بات برقی کے ہی ایک شعر پر ختم کرتا ہوں -***
ہے رودادِ دل یہ غزل کے بہانے
کوئی اس حقیقت کو مانے نہ مانے
Aslam chishti flat no 404, shaan riviera aprt 45/2 riviera society wanowrie near jambhulkar garden pune maharashtra 411040
09326232141 / 09422006327