روح سخن.. برقی اعظمی کے فکروفن کا آئینہ : انجینئر محمد فرقان سنبھلی شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
روح سخن.. برقی اعظمی کے فکروفن کا آئینہ
انجینئر محمد فرقان سنبھلی
شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
برقی ؔ اعظمی کا شمار ان معدودے چند شعراء میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی شاعری کو نہ صرف کلاسیکی روایات شعر و ادب سے پوری طرح ہم آہنگ رکھا ہے بلکہ دور حاضر کے تقاضوں کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ برقی اعظمی فی البدیہہ شعر کہنے میں جیسی مہارت رکھتے ہیں وہ بہت کم شعراء کے حصہ میں آئی ہے۔ برقی اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ ’’روح سخن‘‘ ان کی طویل عرصہ کو محیط شعری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ برقی انٹرنیٹ خصوصاً فیس بک پر بہت فعال ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس کے ذریعہ دنیا بھر میں مقبول ہوچکے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر مختلف ادبی گروپوں کے ممبر ہیں۔ سائبر مشاعرے منعقد کرتے رہتے ہیں۔ فی البدیہہ مشاعروں میں ان کی شرکت مشاعروں کو رونق عطا کرتی ہے۔ فیس بک پر ان کی ۴۰۰۰ سے زائد غزلیں اور نظمیں شائع ہوچکی ہیں اور انھوں نے انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
برقی اعظمی کو موضوعاتی شاعری سے گہرا شغف رہا ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری میں کلاسیکی روایات کے ساتھ ساتھ عصری آگہی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ ’’روح سخن‘‘ میں موضوعاتی شاعری کی کئی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ برقی اعظمی انسان شناسی کے ماہر ہیں اور اسلوب کی تفہیم میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اپنی موضوعاتی نظموں میں برقی نے جس طرح کا منفرد اسلوب اختیار کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔
برقی اعظمی نے موضوعاتی شاعری کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کراتے ہوئے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ عظیم شخصیات کو منظوم خراج عقیدت پیش کرنا، کسی خاص دن پر شعر کہنا، کوئی تہوار، حادثہ یا واقعہ رونما ہونے پر شعر کہنا، رسالے کے خاص شمارہ یا کتاب کی رسم اجرا وغیرہ پر منظوم کلام پیش کرنا ان کا اختصاص ہے۔ ’روح سخن‘ میں انھوں نے ’یادرفتگاں‘ کے عنوان سے اقبال، فیض، مجاز، کیفی، مجروح، اصغر گونڈوی، آرزو لکھنوی وغیرہ پر منظوم خراج عقیدت پیش کرکے اپنی شعری مہارت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ روح سخن میں کئی ایسے اشعارشامل ہیں، جو کہ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
عمر بھر جن کو سمجھتا تھا میں اپنا خیر خواہ
آستینوں میں انھیں کی ایک دن خنجر ملے
کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں
سو صفر جوڑے مگر برقی نتیجہ تھا صفر
بام عروج سے آگیا نیچے
ڈھل گیا سورج ڈھلتے ڈھلتے
ہوا کرتے تھے جو دربان اپنے
اب ان کی آج سلطانی کے دن ہیں برقی اعظمی کی شاعری کا بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے کیونکہ انھیں یہ صنف سخن بہت محبوب ہے۔ ان کی غزلوں کی ایک خامی یا خوبی یہ ہے کہ ان کی بیشتر غزلیں آغاز تا اختتام تقریباً ایک ہی رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہیں ۔ وہ جان بوجھ کر یک رنگی غزل نہیں کہتے در اصل ان کی غزل کا یہ رنگ غیر اختیاری ہے۔ غزل کے تمام اشعار خود اپنے آپ میں مکمل ہوتے ہیں، اگر یہ اشعارتسلسل کے جال میں پھنس جائیں تو ان پر مثنوی یا نظم کا احساس ہونے لگتا ہے۔ برقی اعظمی نے حالانکہ خود کو اس جال سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ برقی اعظمی نے ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو اجاگر کرنے میں بھی غزل کی صنف کا سہارا لیا ہے، جو کہ بیشتر مواقع پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ برقی اعظمی کی غزلوں کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی تقریباً ہر غزل کامرکزی کردار ان کی اپنی ذات سے وابستہ ہے۔برقی اعظمی نے غزل کے روایتی مضامین یعنی عشق وعاشقی کے قصوں سے حتی الامکان دور رہنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کی ہے حالانہ ان کی کچھ غزلوں میں تغزل کا رنگ خوب ابھرا ہے:
چاند سے کم نہیں اس کا روئے حسین
روئے زیبا کی ہے دلکشی چاندنی
کیوں نظر آرہا ہے وہ گم سم
آج کیوں لب کشا نہیں ہوتا
وہ مجسم بہار ہیں ان میں
ہیں بہت سی صفات پھولوں کی
برقی اعظمی خوش فکر شاعر ہیں انھوں نے اپنی فکری بصیرت کی وسعت کا ’’روح سخن‘‘ میں خوب احساس کرایا ہے۔ ان کی فکر کی وسعت عالمی سطح کے افق پر پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ وہ صیہونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں پر کچھ یوں کہتے ہیں:
حالات سے ہے مشرق وسطیٰ کے آشکار
صیہونیت کی زد میں ہے امن و امان پھر
ہے فلسطین اس کی ایک مثال
جیسے اک کارزار ہے دنیا
برقی اعظمی کے شعری موضوعات میں ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی ضرورت، داخلی خلش اور خلفشار، عماء فضلاء کی بے قدری، شہری زندگی کی بیزاری، دنیا کی برق رفتاری اور اس کے نتائج، آزادئ ہندوستان اور اقلیتوں پر فسادات کے عذاب، خدمت خلق کا جذبہ، عظمت رفتہ کی بازیافت کے ساتھ ساتھ ہجر و فراق اور عشق و عاشقی کے مضامین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے فضا کی آلودگی اور عالمی حدت سے بیزاری کے مضامین کو خوبصورتی کے ساتھ اپنی غزلوں میں پیش کرکے نوع انسانی کی تباہی کے متعلق با ربار متنبہ کرنے کی سعی کی ہے:
اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ
رونق بزم جہاں کل ہو نہ ہو
ان کی موضوعاتی نظمیں گلوبل وارمنگ، ماحولیات، پولیو، ایڈز، سائنس اور مختلف دنوں جیسے موضوعات شامل ہیں۔ برصغیر ہندوپاک کی گنگا جمنی تہذیب اور ثقافت کی رنگت سے بھرپور ہے۔
نظر بچاکے وہ ہم سے گزرگئے چپ چاپ
ابھی یہیں تھے نہ جانے کدھر گئے چپ چاپ
ہوئی خبر بھی نہ ہم کو کب آئے اور گئے
نگاہ ناز سے دل میں اترگئے چپ چاپ
برقی اعظمی نے فارسی تراکیب کا استعمال بہت کم کیا ہے حالانکہ وہ فارسی کے ماہر ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ سادہ زبان و بیان کے قائل ہیں۔ سادگی کے باوجود ان کے اشعار میں سوزوگداز کے ساتھ ساتھ محاوروں کا برمحل استعمال بھی ملتا ہے۔ ان کی بعض غزلوں میں غنائیت بھی متاثر کرتی ہے۔
یاد ماضی ستاتی رہی رات بھر
خواب میں آتی جاتی رہی رات بھر
دیکھ کر اس کو میں دم بخود رہ گیا
نیند میری اڑاتی رہی رات بھر
برقی اعظمی کی شاعری میں کچھ متضاد خیالات کا اظہار بھی ملتا ہے مثلاً وہ کہیں کہیں قنوطیت کی طرف مائل ہوتے نظر آتے ہیں۔
ہے عرصۂ حیات مرا تنگ اس قدر
جی چاہتا ہے چل دوں اسے چھوڑ چھاڑ کے
اور دوسری طرف وہ مستقبل سے بڑی حد تک پُرامید بھی ہیں:
آنے والا ہے ابابیلوں کا لشکر ہوشیار
دیرپا ہوتے نہیں ہیں جاہ و حشمت کے چراغ
احمد علی برقی اعظمی کا مجموعہ ’روح سخن‘ نہ صرف یہ کہ برقی اعظمی کی شخصیت سے کسی حد تک واقف کراتا ہے بلکہ زندگی کے نشیب و فراز اور انسان کی پل پل بدلتی ذہنیت کا سچا عکاس بھی ہے۔ برقی اعظمی نے غم جاناں اور غم دوراں کی سچی تصویریں روح سخن میں جمع کی ہیں جو ان کے صاف شفاف دل کے احساسات کو نمایاں کردیتی ہیں۔ ایک پاک دل شاعر جب شکایت کرتا ہے کہ:
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا
تو اہل ادب کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے کرب کو محسوس کریں اور وہ نہ ہونے دیں، جس کے لیے برقی کہتے ہیں:
فصیل شہر کے باہر نہیں کسی کو خبر
بہت سے اہل ہنر یوں ہی مرگئے چپ چاپ
بہرحال ہم اس نیک دل شاعر کے لیے دعا گو ہیں اور پُرامید بھی کہ:
ہر قدم بکھریں گے برقی تیرے قدموں کے نشاں
ایک دن مانے گا تیری عظمتیں سارا جہاں
شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
برقی ؔ اعظمی کا شمار ان معدودے چند شعراء میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی شاعری کو نہ صرف کلاسیکی روایات شعر و ادب سے پوری طرح ہم آہنگ رکھا ہے بلکہ دور حاضر کے تقاضوں کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔ برقی اعظمی فی البدیہہ شعر کہنے میں جیسی مہارت رکھتے ہیں وہ بہت کم شعراء کے حصہ میں آئی ہے۔ برقی اعظمی کا پہلا شعری مجموعہ ’’روح سخن‘‘ ان کی طویل عرصہ کو محیط شعری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ برقی انٹرنیٹ خصوصاً فیس بک پر بہت فعال ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل سائٹس کے ذریعہ دنیا بھر میں مقبول ہوچکے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر مختلف ادبی گروپوں کے ممبر ہیں۔ سائبر مشاعرے منعقد کرتے رہتے ہیں۔ فی البدیہہ مشاعروں میں ان کی شرکت مشاعروں کو رونق عطا کرتی ہے۔ فیس بک پر ان کی ۴۰۰۰ سے زائد غزلیں اور نظمیں شائع ہوچکی ہیں اور انھوں نے انٹرنیٹ پر اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
برقی اعظمی کو موضوعاتی شاعری سے گہرا شغف رہا ہے۔ ان کی موضوعاتی شاعری میں کلاسیکی روایات کے ساتھ ساتھ عصری آگہی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ ’’روح سخن‘‘ میں موضوعاتی شاعری کی کئی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ برقی اعظمی انسان شناسی کے ماہر ہیں اور اسلوب کی تفہیم میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اپنی موضوعاتی نظموں میں برقی نے جس طرح کا منفرد اسلوب اختیار کیا ہے وہ انہی کا خاصہ ہے۔
برقی اعظمی نے موضوعاتی شاعری کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناس کراتے ہوئے ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ عظیم شخصیات کو منظوم خراج عقیدت پیش کرنا، کسی خاص دن پر شعر کہنا، کوئی تہوار، حادثہ یا واقعہ رونما ہونے پر شعر کہنا، رسالے کے خاص شمارہ یا کتاب کی رسم اجرا وغیرہ پر منظوم کلام پیش کرنا ان کا اختصاص ہے۔ ’روح سخن‘ میں انھوں نے ’یادرفتگاں‘ کے عنوان سے اقبال، فیض، مجاز، کیفی، مجروح، اصغر گونڈوی، آرزو لکھنوی وغیرہ پر منظوم خراج عقیدت پیش کرکے اپنی شعری مہارت کا نمونہ پیش کیا ہے۔ روح سخن میں کئی ایسے اشعارشامل ہیں، جو کہ ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔
عمر بھر جن کو سمجھتا تھا میں اپنا خیر خواہ
آستینوں میں انھیں کی ایک دن خنجر ملے
کچھ نہ آئی کام میری اشک باری ہجر میں
سو صفر جوڑے مگر برقی نتیجہ تھا صفر
بام عروج سے آگیا نیچے
ڈھل گیا سورج ڈھلتے ڈھلتے
ہوا کرتے تھے جو دربان اپنے
اب ان کی آج سلطانی کے دن ہیں برقی اعظمی کی شاعری کا بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے کیونکہ انھیں یہ صنف سخن بہت محبوب ہے۔ ان کی غزلوں کی ایک خامی یا خوبی یہ ہے کہ ان کی بیشتر غزلیں آغاز تا اختتام تقریباً ایک ہی رنگ میں رنگی دکھائی دیتی ہیں ۔ وہ جان بوجھ کر یک رنگی غزل نہیں کہتے در اصل ان کی غزل کا یہ رنگ غیر اختیاری ہے۔ غزل کے تمام اشعار خود اپنے آپ میں مکمل ہوتے ہیں، اگر یہ اشعارتسلسل کے جال میں پھنس جائیں تو ان پر مثنوی یا نظم کا احساس ہونے لگتا ہے۔ برقی اعظمی نے حالانکہ خود کو اس جال سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ برقی اعظمی نے ایک ہی مضمون کے مختلف پہلو اجاگر کرنے میں بھی غزل کی صنف کا سہارا لیا ہے، جو کہ بیشتر مواقع پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ برقی اعظمی کی غزلوں کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ ان کی تقریباً ہر غزل کامرکزی کردار ان کی اپنی ذات سے وابستہ ہے۔برقی اعظمی نے غزل کے روایتی مضامین یعنی عشق وعاشقی کے قصوں سے حتی الامکان دور رہنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کی ہے حالانہ ان کی کچھ غزلوں میں تغزل کا رنگ خوب ابھرا ہے:
چاند سے کم نہیں اس کا روئے حسین
روئے زیبا کی ہے دلکشی چاندنی
کیوں نظر آرہا ہے وہ گم سم
آج کیوں لب کشا نہیں ہوتا
وہ مجسم بہار ہیں ان میں
ہیں بہت سی صفات پھولوں کی
برقی اعظمی خوش فکر شاعر ہیں انھوں نے اپنی فکری بصیرت کی وسعت کا ’’روح سخن‘‘ میں خوب احساس کرایا ہے۔ ان کی فکر کی وسعت عالمی سطح کے افق پر پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ وہ صیہونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں پر کچھ یوں کہتے ہیں:
حالات سے ہے مشرق وسطیٰ کے آشکار
صیہونیت کی زد میں ہے امن و امان پھر
ہے فلسطین اس کی ایک مثال
جیسے اک کارزار ہے دنیا
برقی اعظمی کے شعری موضوعات میں ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی ضرورت، داخلی خلش اور خلفشار، عماء فضلاء کی بے قدری، شہری زندگی کی بیزاری، دنیا کی برق رفتاری اور اس کے نتائج، آزادئ ہندوستان اور اقلیتوں پر فسادات کے عذاب، خدمت خلق کا جذبہ، عظمت رفتہ کی بازیافت کے ساتھ ساتھ ہجر و فراق اور عشق و عاشقی کے مضامین بھی شامل ہیں۔ انھوں نے فضا کی آلودگی اور عالمی حدت سے بیزاری کے مضامین کو خوبصورتی کے ساتھ اپنی غزلوں میں پیش کرکے نوع انسانی کی تباہی کے متعلق با ربار متنبہ کرنے کی سعی کی ہے:
اوج پر ہے اب گلوبل وارمنگ
رونق بزم جہاں کل ہو نہ ہو
ان کی موضوعاتی نظمیں گلوبل وارمنگ، ماحولیات، پولیو، ایڈز، سائنس اور مختلف دنوں جیسے موضوعات شامل ہیں۔ برصغیر ہندوپاک کی گنگا جمنی تہذیب اور ثقافت کی رنگت سے بھرپور ہے۔
نظر بچاکے وہ ہم سے گزرگئے چپ چاپ
ابھی یہیں تھے نہ جانے کدھر گئے چپ چاپ
ہوئی خبر بھی نہ ہم کو کب آئے اور گئے
نگاہ ناز سے دل میں اترگئے چپ چاپ
برقی اعظمی نے فارسی تراکیب کا استعمال بہت کم کیا ہے حالانکہ وہ فارسی کے ماہر ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ سادہ زبان و بیان کے قائل ہیں۔ سادگی کے باوجود ان کے اشعار میں سوزوگداز کے ساتھ ساتھ محاوروں کا برمحل استعمال بھی ملتا ہے۔ ان کی بعض غزلوں میں غنائیت بھی متاثر کرتی ہے۔
یاد ماضی ستاتی رہی رات بھر
خواب میں آتی جاتی رہی رات بھر
دیکھ کر اس کو میں دم بخود رہ گیا
نیند میری اڑاتی رہی رات بھر
برقی اعظمی کی شاعری میں کچھ متضاد خیالات کا اظہار بھی ملتا ہے مثلاً وہ کہیں کہیں قنوطیت کی طرف مائل ہوتے نظر آتے ہیں۔
ہے عرصۂ حیات مرا تنگ اس قدر
جی چاہتا ہے چل دوں اسے چھوڑ چھاڑ کے
اور دوسری طرف وہ مستقبل سے بڑی حد تک پُرامید بھی ہیں:
آنے والا ہے ابابیلوں کا لشکر ہوشیار
دیرپا ہوتے نہیں ہیں جاہ و حشمت کے چراغ
احمد علی برقی اعظمی کا مجموعہ ’روح سخن‘ نہ صرف یہ کہ برقی اعظمی کی شخصیت سے کسی حد تک واقف کراتا ہے بلکہ زندگی کے نشیب و فراز اور انسان کی پل پل بدلتی ذہنیت کا سچا عکاس بھی ہے۔ برقی اعظمی نے غم جاناں اور غم دوراں کی سچی تصویریں روح سخن میں جمع کی ہیں جو ان کے صاف شفاف دل کے احساسات کو نمایاں کردیتی ہیں۔ ایک پاک دل شاعر جب شکایت کرتا ہے کہ:
ہوتا زمانہ ساز تو سب جانتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا
تو اہل ادب کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے کرب کو محسوس کریں اور وہ نہ ہونے دیں، جس کے لیے برقی کہتے ہیں:
فصیل شہر کے باہر نہیں کسی کو خبر
بہت سے اہل ہنر یوں ہی مرگئے چپ چاپ
بہرحال ہم اس نیک دل شاعر کے لیے دعا گو ہیں اور پُرامید بھی کہ:
ہر قدم بکھریں گے برقی تیرے قدموں کے نشاں
ایک دن مانے گا تیری عظمتیں سارا جہاں