دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو : ایک زمین کئی شاعر ندا فاضلی اور احمد علی برقی اعظمی ، بشکریہ ناظم ایک زمین کئی شاعر ، اردو کلاسک اور ایک اور انیک جناب عمر جاوید خان
ایک زمین کئی شاعر
ندا فاضلی اور احمد علی برقی اعظمی
ندا فاضلی
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
صرف آنکھوں سے ہی دنیا نہیں دیکھی جاتی
دل کی دھڑکن کو بھی بینائی بنا کر دیکھو
پتھروں میں بھی زباں ہوتی ہے دل ہوتے ہیں
اپنے گھر کے در و دیوار سجا کر دیکھو
وہ ستارہ ہے چمکنے دو یوں ہی آنکھوں میں
کیا ضروری ہے اسے جسم بنا کر دیکھو
فاصلہ نظروں کا دھوکہ بھی تو ہو سکتا ہے
وہ ملے یا نہ ملے ہاتھ بڑھا کر دیکھو
احمد علی برقی اعظمی
رسمِ اظہار محبت کو نبھا کر دیکھو
دل سے دل چاہنے والوں کے مِلا کر دیکھو
ہم کو آپس میں لڑاکر جو جدا کرتی ہے
بُغض و نفرت کی وہ دیوار گِرا کر دیکھو
کیوں ہو گُم سُم کہو کیا حال ہے کچھ تو بولو
نیچی نظروں کو اِدھر اپنی اُٹھا کر دیکھو
بوجھ جو دل پہ ہے ہو جائے گا اِس سے ہلکا
ہنسو دل کھول کے مجھ کو بھی ہنس کر دیکھو
بدگمانی کا نہیں ہے کہیں دنیا میں علاج
پاس آؤ ہمیں نزدیک سے آکر دیکھو
کیوں اندھیرے میں الگ اور تھلگ بیٹھے ہو
’’ دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو ‘‘
گرمجوشی سے وہ تم سے بھی مِلے گا آکر
ہاتھ برقی کی طرف اپنے بڑھا کر دیکھو
دل سے دل چاہنے والوں کے مِلا کر دیکھو
ہم کو آپس میں لڑاکر جو جدا کرتی ہے
بُغض و نفرت کی وہ دیوار گِرا کر دیکھو
کیوں ہو گُم سُم کہو کیا حال ہے کچھ تو بولو
نیچی نظروں کو اِدھر اپنی اُٹھا کر دیکھو
بوجھ جو دل پہ ہے ہو جائے گا اِس سے ہلکا
ہنسو دل کھول کے مجھ کو بھی ہنس کر دیکھو
بدگمانی کا نہیں ہے کہیں دنیا میں علاج
پاس آؤ ہمیں نزدیک سے آکر دیکھو
کیوں اندھیرے میں الگ اور تھلگ بیٹھے ہو
’’ دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو ‘‘
گرمجوشی سے وہ تم سے بھی مِلے گا آکر
ہاتھ برقی کی طرف اپنے بڑھا کر دیکھو
غزل دیگر
احمد علی برقی اعظمی
خانۂ دل کو جو ویراں ہے بسا کر دیکھو
حال کیسا ہے مرا سامنے آکر دیکھو
تم پہ ہو جائیں گے اسرارِ حقیقت روشن
شمعِ ایمان و یقیں دل میں جلا کر دیکھو
میں بُلانے پہ نہ آؤں تو شکایت کرنا
پہلے تم مجھ کو بصد شوق بُلا کر دیکھو
موم کی طرح پگھل جائے گا پتھر کا جگر
اُس سے اک بار ذرا پیار جتا کر دیکھو
ہے اسے بارِ سماعت جو اسے رہنے دو
حالِ دل اپنا ہے جو اس کو سناکر دیکھو
وہ تمھیں ٹوٹ کے چاہے گا اگر جاگ گیا
خوابِ غفلت میں ہے جو اس کو جگا کر دیکھو
کیوں ہو برقی سے خفا تھوک دو اپنا غصہ
مان بھی جاؤ اسے اپنا بنا کر دیکھو
احمد علی برقی اعظمی
خانۂ دل کو جو ویراں ہے بسا کر دیکھو
حال کیسا ہے مرا سامنے آکر دیکھو
تم پہ ہو جائیں گے اسرارِ حقیقت روشن
شمعِ ایمان و یقیں دل میں جلا کر دیکھو
میں بُلانے پہ نہ آؤں تو شکایت کرنا
پہلے تم مجھ کو بصد شوق بُلا کر دیکھو
موم کی طرح پگھل جائے گا پتھر کا جگر
اُس سے اک بار ذرا پیار جتا کر دیکھو
ہے اسے بارِ سماعت جو اسے رہنے دو
حالِ دل اپنا ہے جو اس کو سناکر دیکھو
وہ تمھیں ٹوٹ کے چاہے گا اگر جاگ گیا
خوابِ غفلت میں ہے جو اس کو جگا کر دیکھو
کیوں ہو برقی سے خفا تھوک دو اپنا غصہ
مان بھی جاؤ اسے اپنا بنا کر دیکھو