بڑی آرزو تھی ملاقات کی: نذرِ بشیر بدر ۔۔۔بزمِ سخن لندن بریطانیہ کے سولہویں عالمی طرحی مشاعرے اپریل ۲۰۱۸ کے لئے میری طبع آزمائی غزلِ مسلسل مصرعہ طرح : بڑی آرزو تھی ملاقات کی ( بشیر بدر) احمد علی برقیؔ اعظمی
بزمِ سخن لندن بریطانیہ کے سولہویں عالمی طرحی مشاعرے اپریل ۲۰۱۸ کے لئے میری طبع آزمائی
غزلِ مسلسل
مصرعہ طرح : بڑی آرزو تھی ملاقات کی ( بشیر بدر)
احمد علی برقیؔ اعظمی
وہ آیا تو لیکن نہ کچھ بات کی
’’ بڑی آرزو تھی ملاقات کی ‘‘
فقط اپنی ہی وہ سناتا رہا
نہ کی قدر کچھ میرے جذبات کی
شناسا تھا جو بن گیا اجنبی
تھی پُرسوز وہ رات برسات کی
جہاں ڈوبتا اور اُبھرتا رہا
تھی اک موج ایسی خیالات کی
مری لوحِ دل پر ہے جو مُرتَسِم
ہے باقی کسک وہ فسادات کی
میں سن کر جنھیں دم بخود رہ گیا
تھی بھرمار ایسے سوالات کی
ملاتے تھے جس کی سبھی ہاں میں ہاں
وہ کرتا رہا بات بے بات کی
زباں گُنگ اور ذہن ہے بدحواس
کہوں بات کیا اُس کی سوغات کی
معاصر بھی تھے جس کے اُن کے شکار
رہا زد پہ برقیؔ بھی حالات کی
غزلِ مسلسل
مصرعہ طرح : بڑی آرزو تھی ملاقات کی ( بشیر بدر)
احمد علی برقیؔ اعظمی
وہ آیا تو لیکن نہ کچھ بات کی
’’ بڑی آرزو تھی ملاقات کی ‘‘
فقط اپنی ہی وہ سناتا رہا
نہ کی قدر کچھ میرے جذبات کی
شناسا تھا جو بن گیا اجنبی
تھی پُرسوز وہ رات برسات کی
جہاں ڈوبتا اور اُبھرتا رہا
تھی اک موج ایسی خیالات کی
مری لوحِ دل پر ہے جو مُرتَسِم
ہے باقی کسک وہ فسادات کی
میں سن کر جنھیں دم بخود رہ گیا
تھی بھرمار ایسے سوالات کی
ملاتے تھے جس کی سبھی ہاں میں ہاں
وہ کرتا رہا بات بے بات کی
زباں گُنگ اور ذہن ہے بدحواس
کہوں بات کیا اُس کی سوغات کی
معاصر بھی تھے جس کے اُن کے شکار
رہا زد پہ برقیؔ بھی حالات کی