بشیر بدر کے مصرعہ طرح پر قوس قزح ادبی گروپ کے ۳۳ویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی :احمد علی برقی اعظمی
بشیر بدر کے مصرعہ طرح پر قوس قزح ادبی گروپ کے ۳۳ویں عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
پَلوشن بڑھ رہا ہے دن بہ دن جو کم نہیں ہوتا
’’ ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا‘‘
’’ گلوبَل وارمنگ ‘‘ کی زد میں ہے شیرازۂ ہستی
وگرنہ ناک میں ہرگز سبھی کا دم نہیں ہوتا
سبھی مجبور ہیں شہروں میں جامِ زہر پینے کو
اثر آلودگی کا بڑھ رہا ہے کم نہیں ہوتا
مٹانے پر تُلا ہے صفحۂ ہستی سے وہ مجھ کو
سرِ تسلیم میرا جس کے آگے خَم نہیں ہوتا
مجھے ڈر ہے نہ رَستے رِستے یہ ناسور ہو جائے
مرے زخمِ جگر کا کیا کوئی مرہم نہیں ہوتا
جَلائے جارہا ہوں اس کو طوفانِ حوادث میں
چراغِ آرزو پھر بھی مرا مدھم نہیں ہوتا
بسر کب تک کروں گُھٹ گُھٹ کے یونہی زندگی اپنی
نہ جانے کیوں مرا سوزِ دروں یہ کم نہیں ہوتا
نہ ہوتا سُرخیٔ اخبار ہر سو میرا افسانہ
رقیبِ روسیہ میرا اگر محرم نہیں ہوتا
نہ ہوتا بند میرا ناطقہ احمد علی برقی
نشاط و کیف رنج و غم میں گر مدغم نہیں ہوتا