بشکریہ : ناظم ایک زمین کئی شاعر جناب عمر جاوید خان : طرحی غزلیں مشاعرہ اردو ادب ، مظفر احمد مظفر ( لندن) عبد اللہ خالد ( دہلی ) وقار برکاتی ظاہری ( کانپور) احمد علی برقی اعظمی (دہلی )
ایک زمین کئی شاعر
مظفر احمد مظفر ( لندن) عبد اللہ خالد ( دہلی ) وقار برکاتی ظاہری ( کانپور) احمد علی برقی اعظمی (دہلی )
طرحی غزل*
برگِ خِزاں تھا حِیطٙہءِ صرصر میں آ گیا
اُڑتا ہوا میں دٙستِ ستمگر میں آ گیا
مظفر احمد مظفر ( لندن) عبد اللہ خالد ( دہلی ) وقار برکاتی ظاہری ( کانپور) احمد علی برقی اعظمی (دہلی )
طرحی غزل*
برگِ خِزاں تھا حِیطٙہءِ صرصر میں آ گیا
اُڑتا ہوا میں دٙستِ ستمگر میں آ گیا
دل مبتلائے جذبہ ءِ الفت ہے اس قدر
جنّت سے اٹھ کےکوچہءِ دلبر میں آ گیا
جنّت سے اٹھ کےکوچہءِ دلبر میں آ گیا
یہ بھی طِلسمِ نقشِ کفِ پا ہے دوستو!
دیکھو! میں کیسے گُنبدِ بے در میں آ گیا
دیکھو! میں کیسے گُنبدِ بے در میں آ گیا
پا ہی گیا میں اوجِ ثریّا کی وسعتیں !
عالم سمٹ کے جب خٙطِٙ ساغر میں آ گیا
عالم سمٹ کے جب خٙطِٙ ساغر میں آ گیا
یوں دل پہ اِلتِفاتِ نظر کر گیا ہے وہ
”دستک دیے بغیرمرے گھر میں آ گیا “
***مظفراحمد مظفر
”دستک دیے بغیرمرے گھر میں آ گیا “
***مظفراحمد مظفر
دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا
یہ حوصلہ کہاں سے ستمگر میں آ گیا
کچھ دیر اسکا ہاتھ مرے ہاتھ میں رہا
طوفان سا لہو کے سمندر میں آگیا
کیا حادثہ ہوا ہے کہ دل سا اسیرِشب
بازیگرانِ صبح کے لشکر میں آ گیا
پھیلاتومیرے قدکے برابر نہ تھا لباس
سمٹا تو ایک چھوٹی سی چادر میں آ گیا
سچ بول کرفضول کا جھگڑا لیا ہے مول
یعنی کہ خوامخواہ کے چکر میں آ گیا
راہِ عروجِ عشق میں دل ایسا تیز گام
کچھ یوں گرا زوال کی ٹھوکرمیں آ گیا
خاؔلد! جنونِ شوق کو بھی آسرا ملے
دامن تو خیر دستِ رفو گر میں آ گیا ***عبداللہ خالد
طرحی غزل۔
بےچہرگی کا غم تھا تو پیکر میں آ گیا
قطرہ بھی بہتے بہتے سمندر میں آ گیا
نیکی ضرور کوئی مرے کام آگئی
ورنہ وہ شخص کیسے مقدر میں آ گیا
اک زخم بھر گیا تو لگاتا ہے ایک زخم
یہ فن کہاں سے دستِ رفوگر میں آ گیا
عشاق میں بھی گرمئ بازار اس کی ہے
جب سے گلاب اس کے فلیور میں آ گیا
معصوم تھیں ادائیں بھی کمسن تھا جب تلک
ہو کر جواں وہ اور ہی تیور میں آ گیا
باغی تھا ٗ بے وفا تھا ٗ وہ غدار تو نہ تھا
آخر پلٹ کے اپنے ہی لشکر میں آ گیا
پھر ہوگئی وقاؔر مجھے زندگی عزیز
پھر کو ئی خُوب رُو دلِ مضطر میں آ گیا
***وقاربرکاتی طاہری
طرحی غزل
سودائے عشق جب سے مرے سَر میں آ گیا
اک کربِ ذات میرے مقدر میں آ گیا
وہ گُلعذار آتا ہے ہر سو مجھے نظر
حسن و جمال جس کا گُلِ تَر میں آ گیا
یہ نامہ بَر کی دیدہ دلیری تو دیکھئے
’’ دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا ‘‘
رہتا ہے میرے پیشِ نظر وقتِ میکشی
یہ کس کا عکس شیشہ و ساغر میں آ گیا
میں سوچتاتھا شَرسے ہوں محفوظ اُسکے میں
دامن مرا بھی دستِ ستمگر میں آ گیا
اپنا سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں
وہ بھی مرے حریفوں کے لشکر میں آ گیا
برؔقی ہے میرے ذہن میں اک محشرِ خیال
اک مد و جزر جیسے سمندر میں آ گیا
***ڈاکٹر احمدعلی برؔقی اعظمی
یہ حوصلہ کہاں سے ستمگر میں آ گیا
کچھ دیر اسکا ہاتھ مرے ہاتھ میں رہا
طوفان سا لہو کے سمندر میں آگیا
کیا حادثہ ہوا ہے کہ دل سا اسیرِشب
بازیگرانِ صبح کے لشکر میں آ گیا
پھیلاتومیرے قدکے برابر نہ تھا لباس
سمٹا تو ایک چھوٹی سی چادر میں آ گیا
سچ بول کرفضول کا جھگڑا لیا ہے مول
یعنی کہ خوامخواہ کے چکر میں آ گیا
راہِ عروجِ عشق میں دل ایسا تیز گام
کچھ یوں گرا زوال کی ٹھوکرمیں آ گیا
خاؔلد! جنونِ شوق کو بھی آسرا ملے
دامن تو خیر دستِ رفو گر میں آ گیا ***عبداللہ خالد
طرحی غزل۔
بےچہرگی کا غم تھا تو پیکر میں آ گیا
قطرہ بھی بہتے بہتے سمندر میں آ گیا
نیکی ضرور کوئی مرے کام آگئی
ورنہ وہ شخص کیسے مقدر میں آ گیا
اک زخم بھر گیا تو لگاتا ہے ایک زخم
یہ فن کہاں سے دستِ رفوگر میں آ گیا
عشاق میں بھی گرمئ بازار اس کی ہے
جب سے گلاب اس کے فلیور میں آ گیا
معصوم تھیں ادائیں بھی کمسن تھا جب تلک
ہو کر جواں وہ اور ہی تیور میں آ گیا
باغی تھا ٗ بے وفا تھا ٗ وہ غدار تو نہ تھا
آخر پلٹ کے اپنے ہی لشکر میں آ گیا
پھر ہوگئی وقاؔر مجھے زندگی عزیز
پھر کو ئی خُوب رُو دلِ مضطر میں آ گیا
***وقاربرکاتی طاہری
طرحی غزل
سودائے عشق جب سے مرے سَر میں آ گیا
اک کربِ ذات میرے مقدر میں آ گیا
وہ گُلعذار آتا ہے ہر سو مجھے نظر
حسن و جمال جس کا گُلِ تَر میں آ گیا
یہ نامہ بَر کی دیدہ دلیری تو دیکھئے
’’ دستک دیے بغیر مرے گھر میں آ گیا ‘‘
رہتا ہے میرے پیشِ نظر وقتِ میکشی
یہ کس کا عکس شیشہ و ساغر میں آ گیا
میں سوچتاتھا شَرسے ہوں محفوظ اُسکے میں
دامن مرا بھی دستِ ستمگر میں آ گیا
اپنا سمجھ رہا تھا جسے خیر خواہ میں
وہ بھی مرے حریفوں کے لشکر میں آ گیا
برؔقی ہے میرے ذہن میں اک محشرِ خیال
اک مد و جزر جیسے سمندر میں آ گیا
***ڈاکٹر احمدعلی برؔقی اعظمی
بشکریہ : اردو ادب