برپا ہے میرے ذہن میں اک محشرِ خیال : احمد علی برقی اعظمی

غزل

احمد علی برقیؔ اعظمی

کیسے کروں میں گردشِ دوراں کی شرحِ حال

برپا ہے میرے ذہن میں اک محشرِ خیال
سوزِ دروں نے کردیا جینا مرا مُحال
قلب و جگر کے زخم کا کب ہوگا اِندمال
میرا یہی ہے کاتبِ تقدیر سے سوال
کیا ہوگی اپنی عظمتِ رفتہ کبھی بحال
ہم ہیں شکارگاہِ جہاں میں شکار آج
راہِ فرار کوئی نہیں ہے بچھا ہے جال
ملتے ہیں میر جعفرؔ وصادقؔ نئے نئے
ہے بھیڑیوں کے جسم پہ انساں کی آج کھال
جو آج زرخرید ہیں اُن کا عروج ہے
جو سربلند تھے اُنھیں درپیش ہے زوال
بیدار مغز جو ہیں وہ ہیں مصلحت پسند
قحط الرجال ایسا ہے جس کی نہیں مثال
محفوظ جو سمجھتے ہیں اپنے کو ایک دن
کردے گی اُن کو گردشِ دوراں یہ پایمال
ایک ایک کرکے سب کو بنائے گا وہ شکار
شطرنج کی بساط پہ جو چل رہا ہے چال
اب بھی ہے وقت ہوش میں آ ڈس نہ لیں تجھے
تو اپنی آستین میں یہ سانپ اب نہ پال
بیجا مداخلت سے رہیں اُن کی ہوشیار
کرتے ہیں ظلم امن کو جو اب بنا کے ڈھال
مٹتے ہی جارہے ہیں جو عظمت کے تھے نشاں
محفوظ آج کچھ نہیں وہ جان ہو کہ مال
صُبحِ اُمید آئے گی کب تیرگی کے بعد
برقیؔ ہے آج ذہن میں سب کے یہی سوال