اچانک اُس نے بُلایا تو آنکھ بھر آئی : احمد علی برقی اعظمی۔۔ دیا ادبی فورم کے ۱۰۱ویں عالمی آن لائن فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری دوسری طرحی غزل
دیا ادبی فورم کے ۱۰۱ویں عالمی آن لائن فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری طرحی غزل
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
وہ حسبِ وعدہ نہ آیا تو آنکھ بھر آئی
مجھے تماشا بنایا تو آنکھ بھر آئی
سجا کے رکھتا تھا پلکوں پہ جس کو میں اکثر
نظر سے اُس نے گرایا تو آنکھ بھر آئی
ہمیشہ کرتا تھا میری جو ناز برداری
اُسی کا ناز اُٹھایا تو آنکھ بھر آئی
جسے سمجھتا تھا میں دلنواز جب اُس سے
سکونِ قلب نہ پایا تو آنکھ بھر آئی
وہ مجھ سے بھرتا تھا دم دوستی کا لیکن جب
عدو سے ہاتھ ملایا تو آنکھ بھر آئی
نہ تھا یہ وہم و گُماں مجھ کو وہ بلائے گا
اچانک اُس نے بُلایا تو آنکھ بھر آئی
نہیں ہے شکوہ کوئی دشمنوں سے اے برقی
فریب دوست سے کھایا تو آنکھ بھر آئی
دیا ادبی فورم کے ۱۰۱ویں عالمی آن لائن فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری دوسری طرحی غزل
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
وہ جاکے لوٹ کے آیا تو آنکھ بھر آئی
دوبارہ پیار جتایا تو آنکھ بھر آئی
سمجھ رہا تھا جسے آج تک میں دشمنِ جاں
گلے سے اُس نےلگایا تو آنکھ بھر آئی
نگاہیں دیکھ کے جو مجھ کو پھیر لیتا تھا
اشارہ کرکے بُلایا تو آنکھ بھر آئی
منایا کرتا تھا میں جس کو روٹھ جانے پر
جب اس نے مجھ کو منایا تو آنکھ بھر آئی
کسی نے موجِ حوادث میں کشتیٔ دل کو
جو ڈوبنے سے بچایا تو آنکھ بھر آئی
دکھا کے غمزہ و ناز و ادا سرِ محفل
دل و نظر میں سمایا تو آنکھ بھر آئی
نہ تھی امید کوئی جس سے دلنوازی کی
’’ اچانک اس نے بُلایا تو آنکھ بھر آئی‘‘
نگاہِ شوق تھی گرویدہ جس کی جب اُس نے
حجاب رخ سے ہٹایا تو آنکھ بھر آئی
بڑھا کے حوصلہ برقی کا رزم میں اس نے
ضمیر اس کا جگایا تو آنکھ بھر آئی