اُس نے مجھ سے دل لگایا میں تو اس قابل نہ تھا :احمد علی برقی اعظمی
غزل
احمد علی برقی اعظمی
مجھ کو یہ دن بھی دکھایا میں تو اس قابل نہ تھا
بزم میں اپنی بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
احمد علی برقی اعظمی
مجھ کو یہ دن بھی دکھایا میں تو اس قابل نہ تھا
بزم میں اپنی بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
کرکے مجھ کو منتخب اپنی نگاہِ ناز سے
تیرِ مژگاں آزمایا میں تو اس قابل نہ تھا
تیرِ مژگاں آزمایا میں تو اس قابل نہ تھا
حُسنِ نیت کا میں اس کے دے سکوں اس کو جواب
وہ جو میرے کام آیا، میں تو اس قابل نہ تھا
وہ جو میرے کام آیا، میں تو اس قابل نہ تھا
بجھنے والی تھی مری شمعِ شبستانِ حیات
اُس نے اُس کی لو بڑھایا میں تو اس قابل نہ تھا
اُس نے اُس کی لو بڑھایا میں تو اس قابل نہ تھا
غمزہ و ناز و ادا سے کر کے مجھ کو تازہ دم
اس نے میرا دل لُبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
اس نے میرا دل لُبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
وادیٔ غُربت جہاں کوئی نہ تھا پُرسانِ حال
مجھ کو گِرنے سےبچایا میں تو اس قابل نہ تھا
مجھ کو گِرنے سےبچایا میں تو اس قابل نہ تھا
تھا بہت صبر آزما میرے لئے اس کا فراق
کھو چُکا تھا جس کو پایا میں تو اس قابل نہ تھا
کھو چُکا تھا جس کو پایا میں تو اس قابل نہ تھا
جس کو میں وعدہ شکن سمجھا تھا اس نے بر محل
وعدۂ فردا نبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
وعدۂ فردا نبھایا میں تو اس قابل نہ تھا
داد کے قابل ہے برقی اس کا حُسنِ انتخاب
اُس نے مجھ سے دل لگایا میں تو اس قابل نہ تھا
اُس نے مجھ سے دل لگایا میں تو اس قابل نہ تھا