انحراف ادبی گروپ کے ۳۵۰ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے بیاد خمار بارہ بنکوی مرحوم کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی
انحراف ادبی گروپ کے ۳۵۰ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے بیاد خمار بارہ بنکوی مرحوم کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
جاتا نہیں یہ عشق کا سودا مرے سر سے
لوٹ آتا ہوں جا جا کے دوبارہ ترے در سے
میں حال زبوں اپنا کسی سے نہیں کہتا
’’ اک اشک نکل آیا ہے ہے یوں دیدۂ تَر سے ‘‘
دیتا ہے صدائیں مجھے معلوم نہیں کون
آتی ہے اک آواز اِدھر اور اُدھر سے
وحشت زدہ کرتا ہے مجھے اپنا ہی سایہ
کرتا ہے تعاقب کوئی جاتا ہوں جدھر سے
تم سن نہیں سکتے میں سنا بھی نہیں سکتا
کرتا ہوں یہ تحریر رقم خون جگر سے
دیکھا ہے کہیں تم نے مرے رشکِ قمر کو
میں پوچھتا رہتا ہوں یہی شمس و قمر سے
برقی کو کہیں دیکھا ہے تم نے ، تو وہ بولا
وہ خانہ برانداز ہے نکلا ابھی گھر سے