اب ہر زباں پہ گردشِ ایام کی بات : احمد علی برقی اعظمی
بزمِ سخنوراں کے چوتھے مشاعرے کی ردیف کی ہے بات پر میری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
سوزِ دروں و حسرتِ ناکام کی ہے بات
اب ہر زباں پہ گردشِ ایام کی بات
مدھم ہے آج شمع شبستاں کی جس کے لو
ویران قصرِ دل کے درو بام کی ہے بات
مرغانِ خوشنوا کے نشیمن میں ہر طرف
صیاد کے بچھائے ہوئے دام کی ہے بات
کیسے سنواروں میں دلِ خانہ خراب کو
وردِ زباں سبھی کے مرے نام کی ہے بات
گلشن میں جب سے آتشِ گل سے لگی ہے آگ
گل پیرہن گلوں میں گل اندام کی ہے بات
حسنِ عمل سے اپنی سنوارو حیات کو
برقی تمہارے واسطے یہ کام کی ہے بات