کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی : جناب احمد مشتاق کے مصرعہ طرح پر ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز انٹرنیشنل کے ۴۹ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی احمد علی برقی اعظمی

ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز  انٹرنیشنل  کے ۴۹ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ  طرحی  مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
تھی پہلے جیسی آج وہ حالت نہیں رہی
اب اور ظلم سہنے کی عادت نہیں رہی
مِلنے کی اُن سے تھی جو وہ حسرت نہیں رہی
’’ کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی ‘‘
آئے ہیں اب وہ پُرسشِ  احوال  کے لئے
اُن کی مدد کی جب مجھے حاجت نہیں رہی
پہلے کبھی جو حاشیہ بردار تھے مرے
کہتے ہیں اب تمھاری ضرورت  نہیں رہی
مِلتے ہیں اب شریف نما ہر جگہ رذیل
لوگوں میں خاندانی شرافت نہیں رہی
قائد ہر ایک شخص ہے اب اپنی قوم کا
رونا اسی کا ہے کہ قیادت نہیں رہی
برقی ہے آج دل مرا اک محشرِ خیال
وحشت تھی جس سے اب وہ قیامت نہیں رہی


ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز  انٹرنیشنل  کے ۴۹ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ  طرحی  مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
بے لوث چاہنے کی وہ چاہت نہیں رہی
پہلے تھی جیسی اب وہ محبت نہیں رہی
مایل بہ عشق تھی جو طبیعت نہیں رہی
جذبات میں جو رہتی تھی شدت نہیں رہی
ملتے ہیں اجنبی کی طرح لوگ آج کل
دل سے جو دلبروں میں تھی اُلفت نہیں رہی
ہے مصلحت پسند زمانے کا اب شعار
ملنے کی غم کے ماروں سے فرصت نہیں رہی
باہم رقیب تھے جو گلے مل رہے ہیں اب
اک دوسرے سے تھی جو عداوت نہیں رہی
جمہوریت کا ڈھونگ سیاست ہے اِن دنوں
وہ مبنی بر اُصول سیاست نہیں رہی
جائز حصول زر کے لئے ہے ہر ایک جیز
برقی کسی میں شرم و خجالت نہیں رہی