چھپ کے تنہائی میں کچھ اشک بہالے تو بھی :نوشی گیلانی کے مصرعہ طرح پر ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز کے ۴۶ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی

نوشی گیلانی کے مصرعہ طرح پر ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز کے ۴۶ ویں عالمی  آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
تختۂ مشقِ ستم مجھ کو بنالے تو بھی
چاہتا ہے جو ستانا تو ستالے توبھی
جو بھی لینا ہے تجھے شوق سے پالے تو بھی
چھین لے یہ مرے ہونٹوں سے نوالے تو بھی
عہدِ حاضر میں سبھی خوں کے ہیں پیاسے میرے
اپنی ہے پیاس بجھانی تو بُجھا لے توبھی
کررہے ہیں سبھی کِردار کُشی جب میری
جو سُنانا ہے تجھے آکے سُنا لے تو بھی
زخم خوردہ ہوں میں پہلے ہی سے لیکن پھر بھی
مجھ پہ یہ تیرِ نظر اپنا چلالے تو بھی
کل جو تھا حال ترا آج وہی ہے میرا
جیت کا جشن منانا ہے مَنا لے تو بھی
میری اس شامتِ اعمال پہ ہنسنے والے
’’ چھپ کے تنہائی میں کچھ اشک بہالے تو بھی ‘‘
سب سمجھتے ہیں مجھےمالِ غنیمت برقی
جو اُٹھانا ہے تجھے آکے اُٹھالے تو بھی

نوشی گیلانی کے مصرعہ طرح پر ہفت روزہ فیس بُک ٹائمز کے ۴۶ ویں عالمی  آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
جس طرح تجھ کو مناتا تھا منالے تو بھی
پاس آکر مجھے سینے سے لگا لے تو بھی
محفلِ عیش و طرب اپنی سجالے تو بھی
اپنے سوئے ہوئے ارمان جگالے تو بھی
جس طرح مجھ کو دکھانا ہے دکھا لے تو بھی
ہے تماشا جو بنانا تو بنا لے توبھی
دور ہو جائے گی یہ تیرگیٔ وہم و گماں
شمعِ امید کی لو اپنی بڑھا لے تو بھی
منھ چھپائے ہوئے پھرتا ہوں میں اس سے اپنا
آبرو اپنی زمانے سے بچا لے تو بھی
جیسے رقاصۂ دوراں یہ نچاتی ہے تجھے
انگلیوں پر ہے نچانا تو نچالے تو بھی
جس طرح تجھ کو بچاتا تھا ہمیشہ برقی
گر نہ جائے وہ کہیں اس کو بچالے توبھی