پھر چھڑی رات بات پھولوں کی : نذرِ مخدوم محی الدین مخدوم محی الدین اور احمد علی برقی اعظمی

پھر چھڑی رات بات پھولوں کی : نذرِ مخدوم محی الدین
مخدوم محی الدین اور احمد علی برقی اعظمی
مخدوم محی الدین
پھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی
پھول کے ہار پھول کے گجرے
شام پھولوں کی رات پھولوں کی
آپ کا ساتھ ساتھ پھولوں کا
آپ کی بات بات پھولوں کی
نظریں ملتی ہیں جام ملتے ہیں
مل رہی ہے حیات پھولوں کی
کون دیتا ہے جان پھولوں پر
کون کرتا ہے بات پھولوں کی
وہ شرافت تو دل کے ساتھ گئی
لٹ گئی کائنات پھولوں کی
اب کسے ہے دماغ تہمت عشق
کون سنتا ہے بات پھولوں کی
میرے دل میں سرور صبح بہار
تیری آنکھوں میں رات پھولوں کی
پھول کھلتے رہیں گے دنیا میں
روز نکلے گی بات پھولوں کی
یہ مہکتی ہوئی غزل مخدومؔ
جیسے صحرا میں رات پھولوں کی
غزل
ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی
بات ہے اُن کی بات پھولوں کی
ذات ہے اُن کی ذات پھولوں کی
وہ مجسم بہار ہیں اُن میں
ہیں بہت سی صفات پھولوں کی
گفتگو اُن کی ایسی ہے جیسے
پھول کرتا ہو بات پھولوں کی
گُل ہیں گُلشن میں رونقِ گلزار
اور وہ ہیں حیات پھولوں کی
غُنچہ و گُل کی یہ فراوانی
جیسے ہو اِک برات پھولوں کی
حُسنِ فطرت کا شاہکار ہیں یہ
روح پرور ہے ذات پھولوں کی
روتی ہے فرطِ غم سے شبنم بھی
دیکھ کر مشکلات پھولوں کی
باغباں کی نظر سے دور رہیں
ہے اِسی میں نجات پھولوں کی
درسِ عبرت ہے اہل دل ے لئے
زندگی بے ثبات پھولوں کی
ہے نشاط آفریں بہت برقی
دلنشیں کائنات پھولوں کی