مری روح رواں ہو جانِ جاں ہو : احمد علی برقی اعظمی : دیا ادبی فورم کے ۱۵۳ ویں آنلاین عالمی فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی

دیا ادبی فورم کے ۱۵۳ ویں آنلاین عالمی فی البدیہہ مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی

احمد علی برقی اعظمی

مری روح رواں ہو جاں جاں ہو
میں کب سے منتظر ہوں تم کہاں ہوں
تمہیں تو میرے یارِ مہرباں ہو
تمہیں تو باعثِ آرامِ جاں ہو
کِھلاؤ غنچۂ ٔ امید اس میں
تمہیں تو باغِ دل کے باغباں ہو
سکونِ قلب عنقا ہوگیا ہے
چلے آؤ وہاں سے تم جہاں ہوں
ہیں نمدیدہ مری بے نور آنکھیں
نظر کے سامنے جیسے دھواں ہو
تغزل میں ہے میرے تم سے رونق
سپہرِ فکر و فن کی کہکشاں ہو
سنے گا کون تم بِن میرے احوال
تمہیں ہمدم بھی ہو اور ہم زباں ہو
دکھاؤ گے مجھے کب اپنی صورت
ہوں ایسا جیسے کوئی نیم جاں ہو
دلِ درد آشنا ہو تو سمجھ لو
تمہیں تو صرف میرے رازداں ہو
ہوئے تم دوست جس کے اس جہاں میں
تو دشمن اس کا کیسے آسماں ہو
مجھے دیکھا تو بولے چیخ کر وہ
یہاں تم بِن بُلائے میہماں ہو
اسی نے پھونک ڈالا میرا مسکن
جسے کہتا تھا میرے پاسباں ہو
چرا کر وہ مقالہ میرا بولا
تمہارا نام کیوں وردِ زباں ہو
خدا حافظ ہے ایسے قافلے کا
جہاں رہزن امیرِ کارواں ہو
وہ طوفان حوادث سے ڈرے کیوں
خدا کا جس کے سر پر سائباں ہوں
نہیں الفاظ دیتے ساتھ برقی
تو پھر حال زبوں کیسے بیا ں ہو