’’ فکر اسباب وفا درکار ہے‘‘ : نذرِ ولی دکنی ۔۔ احمد علی برقی اعظمی : قوس قزح عالمی ادبی فورم کے پہلے آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش

قوس قزح عالمی ادبی فورم کے پہلے آن لائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری کاوش

احمد علی برقی اعظمی

مجھ کو بس اس کی رضا درکار ہے

’’ فکر اسباب وفا درکار ہے‘‘

جس میں شامل شربتِ دیدار ہو

دردِ دل کی وہ دوا درکار ہے

ہو تعصب کا نہ جس میں شائبہ

بادۂ مہرووفا درکار ہے

جسم پر بھی جس کا ہو مثبت اثر

روح کی ایسی غذا درکار ہے

روح پرور جس کا ہو ہر زیر و بم

وہ سرودِ جانفزا درکار ہے

ہر طرح کی ہوکثافت سے جو پاک

مجھ کو وہ آب و ہوا درکار ہے

مجھ کو خوئے بے نیازی ہے عزیز

اور اس کو التجا درکار ہے

مِل سکے جس سے اسے ذہنی سکوں

مجھ کو وہ تیرِ قضا درکار ہے

چاہے جو بھی دے بجز ہجر و فراق

مجھ کو اس کی ہر سزا درکار ہے

ہر ادا سے اس کی مجھ کو پیار ہے

ہو روا یا نا روا درکار ہے

کر نہیں سکتا سرِ تسلیم خم

اس کو عرضِ مدعا درکار ہے

جو ولیٔ دکنی کے فن میں تھی

مجھ کو وہ حسنِ ادا درکار ہے

ہر حسیں کے حسن کا زیور ہے جو

مجھ کو وہ شرم و حیا درکار ہے

وہ جو میرا حاشیہ بردار تھا

پوچھتا ہے مجھ سے کیا ادرکار ہے

جیسی تھی اقبال کی بانگِ درا

مجھ کو ایسی ہی نوا درکار ہے

ہو جو اسرارِ ازل سے آشنا

ایک ایسا رہنما درکار ہے

افضل الاشغال ہے برقی یہ فعل

خدمتِ خلقِ خدا درکار ہے