غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ادبی نشست کا اہتمام

غالب اکیڈمی میں ادبی نشست کا اہتمام
گذشتہ روز غالب اکیڈمی ،نئی دہلی میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت جناب انجم عثمانی نے کی اور ہندی اردو کے شعرا اور افسانہ نگار وں نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔نشست میں عالمی شہرت یافتہ مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر ملال پر رنج وغم کا اظہار کیا گیا۔ انجم عثمانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی ٹونک میں پیدا ہوئے۔دنیا کے مختلف ممالک میں رہ کر کراچی میں رہنے لگے ان کی تحریریں کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ اردو کے بڑے ادیب تھے طنزو مزاح کی دنیا انھیں کے دم سے آباد تھی ان کے جانے سے اردو کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان کی کتابیں چراغ تلے،خاکم بہ دہن،زرگزشت،آبِ گم اور شام شہریاراں نے ان کو امر کردیا یہ اردو ادب کا وہ سرمایہ ہے جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں گی۔اس موقع پر انجم عثمانی نے اپنا انشائیہ بھی پڑھ کر سنایا جسے بہت پسند کیا گیا۔چشمہ فاروقی نے جاہل کے عنوان سے ایک افسانہ پڑھا اور شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
رہ عشق میں وہ بھی آتی ہے منزل

نہ ہنستی ہیں آنکھیں نہ روتی ہیں آنکھیں

متین امروہوی
حساب لے کوئی جو بے قصور مارئے گئے

اور اپنی بے ہنری کی قسم بھی کھا نہ سکے

نسیم عباسی
خدا احساس بن کر بولتا ہے

کوئی مجھ میں اتر کر بولتا ہے

سکندر عاقل
خوشی کو بانٹتے اور غم کو چھپانے والے

وہ بھی کیا لوگ تھے رشتوں کو نبھانے والے

سمیر وشسٹھ
تجھ کو مانا کہ ادب کا ہے سلیقہ لیکن

اتنا سر بھی نہ جھکا اپنا کہ دستار گرادے

منوج بیتاب
جب سے اس دل کو میرے تیری چاہت ہوگئی

جینے کی مرمر کے اس کی عادت ہوگئی

ڈاکٹر دویا جین
تیری طلب کی حد نے ایسا جنون بخشا

ہم خود کو بھول بیٹھے تھے یاد کرتے کرتے

عزیز مرزا
اس موقع پر جناب ڈاکٹر مظہر محمود نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ادبی نشستوں کا انعقاد ضروری ہے۔آخر میں سکریٹری غالب اکیڈمی نے بتایا کہ اس سال اردو رسم الخط سکھانے کے لیے اگنو اور اردو اکادمی کے سرٹیفکٹ کورس میں داخلے ہو رہے ہیں ۔جواردو بولنا جانتے ہیں اور شعر بھی کہتے ہیں لیکن اردو رسم الخظ سے واقف نہیں ہیں ۔ ان کے لیے اچھا موقع ہے۔