عشق نگر اردو شاعری گروپ کے زیر اہتمام بتاریخ ۱۳ جولائی ۲۰۱۸ ایک سہانی شام برقی اعظمی کے نام

عشق نگر اردو شاعری گروپ کے زیر اہتمام بتاریخ ۱۳ جولائی ۲۰۱۸ ایک سہانی شام برقی اعظمی کے نام
ٹھنڈی ہوائیں ،بادل ،بارش اور برق (آسمانی بجلی جسے صاعقہ بھی کہتے ہیں )سے کون واقف نہیں ۔ٹھنڈی ہوا سردی میں بھی اچھی لگتی ہے ۔بادل سرمئی ہوں یا سفید ، دل کو لبھاتے ہیں اور بارش تو کسی بھی صاحب دل کو پاگل بنا سکتی ہے ۔
ہمارا آج کا موضوع گفتگو "برق ” ہے ۔بعض لوگ گھریلو بجلی کو برق بولتے ہیں ۔
دراصل برق کا لفظی مطلب ” تیزی ” "چمک "اور کوندا بھی ہے ۔
براق جو نبی پاک کی سواری بنی ،اس کا نام بھی براق اس کی تیز رفتاری کے سبب ہوا ۔
خیر ہم بات برق کی کر رہے ہیں ۔برق جلا سکتی ہے ۔ خاکستر کر سکتی ہے ۔آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے اور ماحول ایک دم روشن کرتی ہے اور غائب ہو جاتی ہے ۔
ہم آج آپ سے ایک ایسی شخصیت کو ملوا رہے ہیں جو نا صرف ایسی ہی صفات سے متصف ہیں بلکہ *برقی * کہلاتے بھی ہیں ۔
جی ہاں ۔ ۔ ۔ ہم واقعی "احمد علی برقی ” کا ہی ذکر خیر فرما رہےہیں ۔
آئیے ملتے ہیں اس عظیم شاعر سے کہ جو محفل میں آ جائے تو اکثر دیے بجھ جاتے ہیں ۔کئی شمعیں گل ہو جاتی ہیں ۔کتنے ہی چراغوں کی لو تھرتھرانے لگتی ہے ۔
آپ کا اصل نام :۔ احمد علی ،، قلمی نام: ۔برقی اعظمی اور تخلص:۔ برقی ؔہے ۔
آپ :۔یوم شنبہ، 25؍دسمبر(جو کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور حضرت عیسیٰ کی تاریخ پیدائش بھی ہے ) 1953 کو اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔
احمد علی برقی اعظمی نے اپنی تعلیم ابتدائیہ سے لے کر کالج تک شبلی کالج اعظم گڑھ میں محاصل کی ۔ وہاں سے اردو میں( ایم اے ) ماسٹرس کرنے کے بعد سنہ 1977میں وہ دہلی چلے آئے اور وہاں جواہرلال نہرو یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ اور 1983 میں آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی سے منسلک ہوئے اور 31 دسمبر 2014 کو ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔
#برقی اعظمی نے اپنے والد محترم جناب رحمت الٰہی برق اعظمی ، جو دیار شبلی کے ایک باکمال صاحب طرز استاد سخن تھے، سے کسب فیض اور شعری تربیت حاصل کی۔ جن کا روحانی فیض برقی اعظمی کے مرصع
کلام کی صورت میں آج تک جاری و ساری ہے۔
برقی اعظمی کا اپنا ایک مخصوص لب و لہجہ ہے جو ان کے شعور فکر وفن کی شناخت ہے۔ برقی اعظمی نے اپنے فکر وفن سے غزل مسلسل کی صورت میں
روایتی اردو شاعری کو ایک جدید رنگ و آہنگ سے روشناس کیا جو ان کا طرۂ امتیازہے ۔ برقی اعظمی نے اپنا
شعری سفر موضوعاتی شاعری سے شروع کیا
اور ٢٠٠٣ سے چھ سال تک ان کی موضوعاتی نظمیں
سائنس، طب، حالات حاضرہ، آفات ارضی و سماو ی جیسے گلوبل وارمنگ، سونامی اور زلزلے وغیرہ سے متعلق دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ سائنس میں مسلسل شائع ہوتی رہیں۔ بعد ازاں باقاعدہ اردو غزل نویسی کی طرف توجہ کی اورآج انٹرنیٹ کے وسیلے سے ان کی غزلیں اور نظمیں لوگوں کی لذت کام و دہن کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ برقی اعظمی اردو کی مختلف ویب سائٹس اورادبی فورم سے کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ ہیں اور ان کا کلام اردو کی بیشتر ویب سائٹس پر دیکھا جاسکتا ہے۔ قارئين گوگل سرچ انجن پر برقی اعظمی لکھ کر ان کی انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کے متعلق معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ برقی اعظمی آجکل فیس بک پر بہت فعال نظر آتے ہیں اوراس جدید وسیلہ ترسیل وابلاغ سے جو اقوام عالم سے رابطہ کا ایک بہترین ذریعہ ہے بحسن خوبی استفادہ کررہے ہیں۔ جہاں ان کی ایک ہزار سے زائد غزلیں اور نظمیں ان کے البم کی
شکل میں اس لنک پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
https://www.facebook.com/media/set/…
برقی اعظمی جدید اردو غزل میں ، غزل مسلسل کو فروغ دینے میں ایک نمایاں کردار ادا کررہے ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بر قی اعظمی کو غزلِ مسلسل میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔ ان کو فی البدیہہ غزلیں اور
منظوم تاثرات لکھنے پر بھی قدرت حاصل ہے ۔ اور وہ باقاعدگی کے ساتھ فیس بک پر موجود مختلف ادبی فورمز کے مشاعروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ وہ کوئی نہ کوئی نئی غزل فیس پر پوسٹ نہ کرتے ہوں۔
***ایک بار مرحوم عزم بہزاد نے لکھا تھا کہ اگر کسی دن برقی اعظمی کی غزلیں فیس بک پرنظر نہیں آتیں تو ناشتے کے دوران شدید تشنگی کا احسا س ہوتا ہے۔ گویا ان کی شاعری زندگی کے روزانہ معمول کاایک جزو لاینفک معلوم ہوتی ہے۔ میرے خیال میں ایک شاعرکے لئے اس سے بہترخراج تحسین
نہیں ہوسکتا۔ ***
#برقی اعظمی کے لوگوں کے کلام پر منظوم تاثرات بھی ان کی بدیہہ گوئی اور زبان و بیان پر مکمل دسترس کے آئینہ دار ہیں۔ اگر ان کے ان فی البدیہہ تاثرات کو یکجا کرلیا جائے تو بدیہہ گوئی سے متعلق ایک شعری مجموعہ منظر عام پہ آ سکتا ہے #
#ان کو جیسے ہی مشاہیر اردو کے یوم پیدائش یا برسی سے متعلق کوئی اطلاع ملتی ہے تو ان کا قلم خودبخود حرکت میں آجاتا ہے اور وہ یاد رفتگاں کے عنوان کےتحت اسے صفحہ قرطاس پر منتقل کردیتے ہیں اس طرح یاد رفتگاں
سے متعلق بھی ایک مجموعہ ترتیب دیا جاسکتا ہے ۔ #
خلاصہء کلام یہ کہ برقی اعظمی کا اشہب قلم صنف سخن کے ہر میدان میں یکساں جولانیاں دکھاتا ہے۔ جو ان کی
انفرادیت اور اردو شاعری میں جدید لب و لہجہ کا آئینہ دار ہے۔
کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر :
"یادگار زمانہ ہیں ہم لوگ
یاد رکھوفسانہ ہیں ہم لوگ”
برقی اعظمی کی شخصیت پر پوری طرح صادق آتا ہے ۔
اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی برقی اعظمی مقامی سطح پر غیر
معروف ہیں اور میر کی دلی میں گوشہء عزلت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
جو ان کے اشعار سے ظاہر ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ۔
*ہوتا زمانہ ساز تو سب جا نتے مجھے
کیا خوئے بے نیازی ہے دیوانہ پن مرا*
*
ویب سائٹوں پہ لوگ ہیں خوش فہمی کا شکار
نا آشنا وطن میں ہے رنگ سخن مرا*
ان کا یہ ذہنی کرب اس شعر میں بھی ملاحظہ ہو۔
*فصیل شہر سے باہر نہیں کسی کو خبر
بہت سے اہل ہنر یونہی مرگئے چپ چاپ*
آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ مولا کریم آپ کو قدم قدم کامیابی عطا کرے اور آپ کا نام اردو کے حوالے سدا زندہ رہے ۔ ۔ ۔
دعا گو :
انتظامیہ عشق نگر
عشق نگر اردو شاعری گروپ کی برقی نوازی پرمنظوم اظہار امتنان و تشکر
احمد علی برقی اعظمی ، نئی دہلی
میں ہوں ممنونِ بزم، ’’ عشق نگر‘‘
ہے جو بزمِ ادب ادیب نواز
آج کی شام ہے جو میرے نام
ہے یہ میرے لئے بڑا اعزاز
یہ تعارف کا سلسلہ اس میں
اس کے حسنِ عمل کا ہے غماز
اس کی دلکش ہے بزم آرائی
منفرد جس کا سب سے ہے انداز
کرتی ہے سب کی عزت افزائی
باعثِ فخر اس کا ہے آغاز
فیس بک پر ہے یہ سفیر ادب
عالمی سطح پر ہے جو ممتاز
ہیں جوانسال اس کے جو ناظم
ہے بلند ان کے ذہن کی پرواز
جملہ احباب کا بھی ہوں ممنون
کامیابی کا ہیں جو اس کی راز
ہے دعا اس کے حق میں برقی کی
کرے اردو کی یہ بلند آواز

قطعہ بعنوان عرض حال
برقی اعظمی
عشق نگر کی ایک سہانی شام ہے جو برقی کے نام
اس کے لئے ہے اس کا تعارف بادۂ عشرت کا اک جام
عشق نگر ہے اس سے شناسا،اس کے لئے ہے یہ اعزاز
میرکی دلی میں رہتا ہے آج سخنور جو گمنام