عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی جانب سے احمد علی برقیؔ اعظمی کو مولانا الطاف حسین حالی ایوارڈ

 رپورٹ: ڈاکٹر ارشاد خان (ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری)
ہمیشہ، ہمہ جہت پروگرام جو واہی سے ہٹ کر، روایت سے بچ کر، اپنی ایک الگ ڈگر جو قلب و نظر میں سما جائے، جو روح کو تسکین اور جمالیاتی حس کو فرحت بخشے۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ ’’جہاں نہ پہنچے روی وہاں  پہنچے کوی ‘‘ یہی مقولہ عزت مآب توصیف سر پر صادق آتا ہے جو نئے جہانوں کی تلاش میں سرگرداں، نت نئے گلستانوں سے گل ہائے رنگارنگ اور عطر بیز ہوائیں مقید کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ جو نہ صرف خود نچلا بیٹھتے ہیں بلکہ پوری ٹیم کو چکرانے پر مجبور کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر پروگرام کی کامیابی کے بعد دوسرے گروپس کو چکر آنے لگتے ہیں اور آخر کار، چکرویوہ، میں پھنس کر بھونڈی نقالی کرنے لگتے ہیں۔ پرظاہر ہے، چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا۔
ادارہ ہذا کا 139واں پروگرام بعنوان’’دکھ‘‘ جو موضوعاتی نظمیہ شاعری پر مشتمل تھا، دس فروری 2018 کو منعقد ہوا۔پروگرام کا خیال امین اڈیرائی صاحب کا تھا۔ حسب سابق یہ پروگرام بھی نیا موضوع لیے ہوئے تھا۔وہ موضوع جو زندگی سے جڑا ہوا ہے۔وہ موضوع جو احساسات سے جڑا ہے۔ وہ موضوع جو غم ذات بھی ہے اور غمِ کائنات بھی۔ سماجی بھی، معاشرتی بھی۔ جو انسان کو توڑنے والا بھی ہے، جو ذہنوں کو جھنجھوڑنے والا بھی ہے۔ جو درد تنہا بھی ہے تو غمِ زمانہ بھی۔ جو حیوان ناطق کو کبھی کبھی حیوان مطلق بھی بنا دیتا ہے اور انسان ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی کرچیاں اور جگر لخت لخت کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہے کبھی سعدی کی صورت تو کبھی شیرازی کی صورت، تو کبھی میر وغالب کو اپنے قالب میں ڈھال کر۔انتہا یہ کہ رنج کا خوگر ہوکر۔ اپنی مشکلات کو آسانیاں سمجھ کر زندگی کی تکمیل کرتا ہے۔ کون ہے وہ جو دکھ سے مبرا ہے؟ کون ہے وہ جو غم شناس نہیں؟ کون ہے وہ جو رنج سے خالی اور درد سے آشنا نہیں؟
انھیں جذبات و احساسات کو الفاظ کی لڑی میں دورِ حاضرہ کے شعرا نے پرویا ہے۔ جسے خوب، بہت خوب، خوب ترسے خوب ترین انداز میں پیش کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز پروردگار عالم کی حمد و ثنا سے ہوا۔ حمد باری تعالی ڈاکٹر ارشاد خان نے پیش کی۔
سبھی بحر وبر میں ہے لعل وگہر میں تو خشکی میں تر میں۔ہے شمس وقمر میں ہر شے میں یارب ہے جلوہ نمائی تیری کبریائی حمد باری تعالی کے بعد معروف شاعر شوزیب کاشر نے بارگاہ رسالت میں نعت کا نذرانہ پیش کیا۔  جس کے لفظ لفظ سے ہویدا عشقِ رسول کی خوشبو دلوں کو معطر کرگئی۔ حم، منیر، طہٰ، یس محتاج کرم ہے دہر غمگیں نعت پاک کے بعد باقاعدہ پروگرام کو آغاز ہوا۔ ناظم بزم جناب ضیا شادانی صاحب نے اشرف علی اشرف صاحب کو دعوت سخن دی۔اشرف صاحب نے نظم ’’آج تو پاس نہیں ہے میرے‘‘ پیش کی۔ آج تو پاس نہیں ہے میرے آج میں کس قدر فسردہ ہوں آج میں کس قدر ہوں گھبرایا
 شریک بزم شعرانے اس نظم کو بہت سراہا۔ ناقدین نے اپنے تاثرات پیش کیے۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری گروپ کی یہ انفرادیت رہی ہے کہ صرف واہ واہی نہیں ہوتی بلکہ تنقید برائے اصلاح بھی ہوتی ہے۔ جسے تخلیق کار خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں۔ اس کے بعد ضیا شادانی صاحب نے اصغر شمیم صاحب کو آواز دی جن کا تعلق کولکتہ بھارت سے ہے۔ ان کی نظم کا عنوان تھا’’کہ دکھ کا بھی کچھ حساب ہوتا‘‘مذکورہ نظم کا یہ شعر خصوصی طور پر دیکھیے:
سبھی کو ملتا بساط بھر یہ
 کہ دکھ کا بھی کچھ حساب ہوتا
 شرکائے محفل نے اس نظم کی خوب پذیرائی کی اور داد وتحسین سے نوازا۔ اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے ڈاکٹر سمیع شاہد صاحب کو دعوت سخن دی، ڈاکٹر صاحب نے ایک منفرد موضوع پر اپنی نظم” کشمیر کا دکھ‘‘ پیش کی۔ یہ وادیاں، یہ ندیاں، یہ مرغزار سارے یہ پہاڑیاں، یہ داماں، یہ کہسار پیارے
ڈاکٹر صاحب نے بہترین منظر کشی کی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔کشمیر کے دکھ کو دلکش انداز میں پیش کیا اور جنت ارضی کے دکھ کو کرہ ارض کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔
اس کے بعد ارسلان فیض صاحب جن کا تعلق پسرور سیالکوٹ سے ہے، سیالکوٹ کی سرزمیں سے اقبال اور فیض جیسی شخصیات کا تعلق رہا ہے۔اسی مردم خیز سرزمیں سے ارسلان صاحب کے اپنی نظم” دکھ‘‘ پیش کی۔
کبھی تم سناتے کبھی ہم سناتے مگر کیا کریں ہم بہت دکھ ہے ورنہ لبوں سے سنائیں تجھے گیت اپنے
اس نظم نے فیض کی نظم” مجھ سے پہلی سی محبت۔‘‘ کی یاد دلادی۔ اس نظم کو خوب داد وتحسین سے نوازا گیا۔
ضیا شادانی صاحب کی نظامت نے محفل میں چار چاند لگادیے۔ اس کی بعد خالد سروجی صاحب گکھڑ سٹی نے اپنی آزاد نظم” دکھ اپنی جگہ” پیش کی، کیا؟ ہمیں کو سہنا تھا یہ دکھ کیا؟ ہمیں میں رہنا تھا یہ دکھ ہم نے ترا آئینہ بن کر اس نظم کو بہت پسند کیا۔ اس کے بعد سیماگوہر صاحبہ نے اپنی آزاد نظم” میری تقدیر کی یہ زنجیریں” پیش کی، کیا کوئی توڑ پائے گا آکر کیا میرے دکھ کا کچھ مداوا ہے کیا میرے خواب یوں ہی بکھریں گے؟ اس ظلم کی خوب پذیرائی ہوئی، ناقدین نے سیرحاصل اور بے لاگ تبصرے کیے۔
یہ کاروانِ سخن یوں ہی آگے بڑھتا رہا۔ ڈاکٹر ارشاد خان نے اپنی منفرد نظم” احساس غم‘‘ سامعین کی نذر کی، یا الہٰی، میری قسمت میں اندھیرے کب تک؟ میرے گلشن میں خزاں رنگی کے ڈیرے کب تک؟ ہوں گے معدوم چمک دار سویرے کب تک؟ اس نظم خوب داد ملی۔ ناظم مشاعرہ کی دعوت پر نیر رانی شفق صاحبہ نے اپنی نظم بعنوان” یہ وہ آنکھیں نہیں جاناں” حاضرین کی نذر کی جو مخصوص نساء لب و لہجہ لیے دل پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ نیلم کو تضادی زرد، کہہ کر چبھتا سوال” کیوں” ندرتِ خیال ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مبصرین اور ناظرین نے اس نظم کا پرجوش استقبال کیا۔
 محفل کا رنگ بام عروج پر تھا اسی بیچ اروا سجل صاحبہ اپنی سجی سجائی نظم لے کر رونق افروز ہوئیں، یہ مجھ سے پوچھتے کیوں ہو کہ کیا غم ہے مرے اندر اداسی موجزن کیوں ہے! رواں دواں الفاظ ہیں دریا،سرگمی ردم لیے بہتا رہا، تشنہ لبوں کی پیاس بجھاتا رہا،دلوں کے تار جھنجھوڑ تا رہا۔بہت داد وتحسین سے نوازا گیا۔
 امین جس پوری صاحب نے اپنی کاوش” دکھ” پیش کی، ہماری زندگی کے ہر ورق پر بزمِ ہستی میں کوئی ایسی عبارت روز ہی تحریر ہوتی ہے اہلِ محفل کی داد اس پر نظامت گویا سونے پہ سہاگہ۔ استاد محترم امین اڈیرائی صاحب اپنی نظم بعنوان دکھ لے کر حاضر ہوئے، محفل اپنے پورے شباب پر تھی۔ کلام استاد دیکھیے:
 کون ہیں جو رستوں پر نقش پا بناتے ہیں
منزلوں کی خواہش میں ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
بہترین کاوش جسے بے حد پسند کیا گیا۔ڈاکٹر عدیل صاحب نے اپنے بیٹے کے سانحہ ارتحال پر کہی گئی نظم” تلاش گمشدہ‘‘ اہل بزم کو نمناک کرگئی، حفیظ مینا نگری کی” دکھ‘‘ کے عنوان پر کہی گئی نظم کے اشعار ملاحظہ ہوں:
سنو اے لوگو سنو یہ دکھ یہ دکھ بھی بڑا عجیب ہے نے
ڈاکٹر صابرہ شاہین کی نظم نسوانی احساسات کی بہترین ترجمان تھی، نیز ڈاکٹر منظور صاحب کی پیش کردہ نظم” دکھ‘‘ کے مصرع دیکھیے:
میں تم کو کیسے سمجھاؤں میری آنکھوں میں میرے ذہن میں
نادر تشبیہات اور استعاروں سے سجی یہ نظم بھر پور تاثر چھوڑ گئی۔
 اخیر میں ہندوستان کے دل” نئی دلی‘‘ سے نوارد شاعر احمد علی برقی اعظمی صاحب اپنی شاہکار نظم’’مجھ سے دیکھا نہیں جاتا کسی انسان کا دکھ‘‘ پیش کی۔
ان کو ہے اپنی فقط گھٹتی ہوئی شان کا دکھ
مجھ سے دیکھا نہیں جاتا کسی انسان کا دکھ
اس ماسٹر پیس نظم کو ججیز کے پینل نے” مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی‘‘ جو بہرحال غالب کے مرشد اور دلی میں متمکن رہے۔ تو دلی کا ایوارڈ۔ دلی کو۔ کیا خوب دل سے دل ملے!! ڈھیروں مبارکباد احمد علی برقی صاحب کو۔
عزت مآب توصیف ترنل صاحب اور ان کی انتظامیہ کو جو یونیک پروگرام منعقد کرتی ہے۔ یہ پروگرام مسلسل تین گھنٹے تک چلتا رہا جو آنکھوں کو ٹھنڈک اور روح کو فرحت بخشتا رہا۔