سائبان ادبی گروپ کے ہفتہ وار عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بعنوان ایک شام برقی اعظمی کے نام بتاریخ ۲۶ اکتوبر کے لئے میری طبع آزمائی

سائبان ادبی گوپ کے ہفتہ وار عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بعنوان ایک شام برقی اعظمی کے نام بتاریخ ۲۶ اکتوبر کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
 ’’ اردو زبانِ دل ہے غزل اس کی جان ہے ‘‘
 احباب میرے آج ہیں جس میں غزل سرا
بزمِ ادب کا سر پہ مرے ’’ سائبان ہے ‘‘
جس کے بغیر میری ادھوری ہے زندگی
 مجھ سے نہ جانے آج وہ کیوں بدگمان ہے
شیدائی سے بنادیا سودائی جس نے اب
سوزِ دروں کا میرے وہی ترجمان ہے
 اس سے بڑا جہاں میں نہیں کوئی بے وفا
 جس کو سمجھ رہا تھا کہ وہ میری جان ہے
 عزمِ جواں ہے میرے لئے میرا خضر راہ
ہر ہر قدم پہ زندگی اک امتحان ہے
 برقی کے ساتھ دیکھئے اس کا ہو کیا سلوک
 جو اُس کا میہماں تھا وہی میزبان ہے
 سائبان ادبی گوپ کے ہفتہ وار عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بعنوان ایک شام برقی اعظمی کے نام بتاریخ ۲۶ اکتوبر کے لئے میری دوسری کاوش
 میرے خلاف آج وہ شعلہ بیان ہے
 اب زہر میں بجھی ہوئی اس کی زبان ہے
 ہیں اس کے اِرد گِرد کئی اور بستیاں
 کیوں زد پہ برق و باد کی میرا مکان ہے
 جو ساتواں عجوبہ ہے سارے جہان میں
 اب موردِ ہدف وہی نام و نشان ہے
 تھا مثلِ خار آنکھوں میں جس کی مرا وجود
 اب ناگوار اُس کو صدائے اذان ہے
جس کو سکھایا شوق سے فنِ سپہ گری
 اب سامنے لئے وہی تیر و کمان ہے
ملت کا اپنی آج ہے شیرازہ منتشر
 اک سمت شیخ جی ہیں تو اک سمت خان ہے
 لہجے سے اُس کے بُغض و عداوت ہے آشکار
 پہلے سمجھ رہا تھا جسے بے زبان ہے
 برقی ہے آج گردشِ حالات کا شکار
جس کے خلاف آج یہ سارا جہان ہے