زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں : ایک زمین کئی شاعر جگر مراد بادی اور احمد علی برقی اعظمی : بشکریہ ایک زمین کئی شاعر، ایک انیک

ایک زمین کئی شاعر
جگر مراد بادی اور احمد علی  برقی  اعظمی
جگر مرادآبادی
عشق لا محدود جب تک رہنما ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
بیکراں ہوتا نہیں بے انتہا ہوتا نہیں
قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں
اس سے بڑھ کر دوست کوئی دوسرا ہوتا نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں
زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
کون یہ ناصح کو سمجھائے بہ طرز دل نشیں
عشق صادق ہو تو غم بھی بے مزا ہوتا نہیں
درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں
میرے عرض غم پہ وہ کہنا کسی کا ہائے ہائے
شکوۂ غم شیوۂ اہل وفا ہوتا نہیں
اس مقام قرب تک اب عشق پہنچا ہی جہاں
دیدہ و دل کا بھی اکثر واسطا ہوتا نہیں
ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج
عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں
اللہ اللہ یہ کمال اور ارتباط حسن و عشق
فاصلے ہوں لاکھ دل سے دل جدا ہوتا نہیں
کیا قیامت ہے کہ اس دور ترقی میں جگرؔ
آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں
احمد علی برقی اعظمی
جب جنونِ شوق میرا رہنما ہوتا نہیں
میں کہاں ہوں خود مجھے اس کا پتا ہوتا نہیں
جب جنونِ آگہی ہوتا ہے میرا خضرِ راہ
صرف وہ ہوتا ہے کوئی دوسرا ہوتا نہیں
دیدہ و دل اس سے ملنے کے لئے ہیں فرشِ راہ
کون سا لمحہ ہے جو صبر آزما ہوتا نہیں
اک متاعِ شوق تھی جو کردیا اس پر نثار
’’ زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں‘‘
جس کے سینے میں دھڑکتا ہے دلِ درد آشنا
دوسروں کے غم سے وہ نا آشنا ہوتا نہیں
میری خوئے بے نیازی ہے مجھے بیحد عزیز
اس لئے دانستہ عرضِ مدعا ہوتا نہیں
موجِ طوفانِ حوادث کا یہ ہوجاتی شکار
کشتیٔ دل کا اگر وہ ناخدا ہوتا نہیں
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے جنونِ شوق میں
جب یہ آجائے کسی پر پھر جدا ہوتا نہیں
رہروانِ شوق کے بھی پاؤں ہوجاتے ہیں شَل
سب کے بس کا جادۂ صبر و رضا ہوتا نہیں
منحصر بس دل پہ ہے یہ کاروبارِ زندگی
جس کا دل اچھا ہے وہ ہرگز بُرا ہوتا نہیں
چشمِ پُرنم سے  وہ ہوجاتا ہے اکثر آشکار
عشق کا اظہار یونہی برملا ہوتا نہیں
اس کی یادوں کا تصور بخشتا ہے روشنی
قصر دل کا جب کبھی روشن دیا ہوتا نہیں
تھے وہ برقی شہریارِ کشورِ شعرو سخن
کیا کروں مجھ سے جگر کا حق ادا ہوتا نہیں