دل سے بے ساختہ جو شعر نکل جاتا ہے : احمد علی برقی اعظمی

 اکتیسویں  عالمی عبدالستار مفتی میموریل آن لائن فی البدیہہ مشاعرے لے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
دل سے بے ساختہ جو شعر نکل جاتا ہے
’’ شعر کیا لفظ کا مفہوم بدل جاتا ہے‘‘
اسے کہتے ہیں سبھی اہلِ جہاں ابن الوقت
وقت کے ساتھ جو انسان بدل جاتا ہے
منحصر کاتبِ تقدیر پہ سب کچھ ہے مرا
وہ جو چاہے تو برا وقت بھی ٹَل جاتا ہے
باغباں کیسے کہوں گلشنِ ہستی کا اسے
غنچہ و گل کو جو بے درد مَسَل جاتا ہے
وعدہ حشر سے کم اس کا نہیں ہر وعدہ
ایک بچے کی طرح دل یہ بہل جاتا ہے
اُس ہُنرمند کا لیتا نہیں کیوں نام کوئی
دے کے شہکار جو اک تاج محل جاتا ہے
کیوں ہے شہزور کے وہ مَدِ مقابل خاموش
زور کمزور پہ جس شخص کا چل جاتا ہے
کاش کرلیتے اسے یاد وہ جب زندہ تھا
جو مسائل کا لئے ساتھ میں حَل جاتا ہے
غازۂ حسن ہے مزدور کی محنت جس کا
اس کا رخسار کڑی دھوپ میں جَل جاتا ہے
یہیں رہ جائے گا سب جاہ حشم اے برقی
ساتھ انساں کے فقط حُسنِ عمل جاتا ہے