جارہے ہیں آپ تو پھر مسکراتے جائیے : احمد علی برقی اعظمی ۔۔۔ موجِ سخن کے ۲۰۰ ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بیاد جشنِ جون ایلیا بتاریخ ۱۹ اگست ۲۰۱۷ کے لئ میری طبع آزمائی

موجِ سخن کے ۲۰۰ویں عالمی آنلائن فی البدیہہ طرحی مشاعرے بیاد جشنِ جون ایلیا بتاریخ ۱۹ اگست ۲۰۱۷ کے لئ میری طبع آزمائی
جارہے ہیں آپ تو پھر مسکراتے جائیے
’’ اپنی یادوں کا سرو ساماں جلاتے جائیے ‘‘
خانۂ دل جس میں مہماں تھے وہ ڈھاتے جائیے
نقش ہیں جو لوحِ دل پر وہ مٹاتے جائیے
خونِ دل جتنا جلانا ہے جلاتے جائیے
جشنِ بربادی محبت کا مناتے جائیے
سُرخرو ہیں آپ تو پھر سر اُٹھاتے جائے
جاتے جاتے مجھ سے پھر نظریں مِلاتے جائیے
کیوں کیا ترکِ تعلق مجھ سے آخر آپ نے
کیا خطا تھی میری یہ مجھ کو بتاتے جائیے
اِک ہنسی پر آپ کی میں مَرمِٹا دیوانہ وار
آپ سے کس نے کہا مجھ کو رُلاتے جائیے
قصرِ دل میں آکے میرے کیوں جلایا تھا اسے
ہے یہ یادوں کا دیا اس کو بجھاتے جائیے
چار دن کی چاندنی ہے یہ جہانِ آب و گِل
جس طرح پہلے ہنساتے تھے ہنساتے جائیے
آپ کا بھی جلد ہی آئے گا یومِ احتساب
ہے جو دوگز کی زباں منھ میں چلاتے جائیے
زندگی کا ماحصل ہوگی مری اس کی مہک
گلشنِ ہستی میں کوئی گُل کِھلاتے جائیے
دوستی کا گھونٹ دیں اپنے ہی ہاتھوں سے گلہ
فرض ہے جو دوستی کا وہ نبھاتے جائیے
آپ کو جون ایلیا کی دے رہا ہوں میں قسم
گا رہےتھے ان کی جو غزلیں وہ گاتے جائیے
کہہ رہا ہے آپ سے جو آج برقی اعظمی
اس کی سنئے اور اپنی بھی سناتے جائیے