تلاش کرتے ہیں گوہر کہیں محبت کے : جہانگیر شیخ کے مصرعہ طرح پر عشق نگر اردو شاعری کے ۳۵ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی ۔۔ احمد علی برقی اعظمی

جہانگیر شیخ کے مصرعہ طرح پر عشق نگر اردو شاعری کے ۳۵ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری طبع آزمائی
احمد علی برقی اعظمی
جہاں جہاں بھی تھپیڑے ہیں موج نفرت کے
تلاش کرتے ہیں گوہر وہاں محبت کے
وہ پیدا کرتے ہیں حالات خوف و دہشت کے
جو ان کی مُہرہ شطرنج ہیں سیاست کے
یہ کہدے جاکے کوئی اُن سے اپنی حد میں رہیں
نہیں ہیں دیرپا جلوے یہ شان و شوکت کے
جنھیں غرور ہے جاہ وحشم پہ اپنے ، وہ
بدل سکیں گے نہ ہرگز نظام فطرت کے
یہ کھوٹے سکے انھیں کے گلے نہ پڑ جائیں

نہ کام آئیں گے یہ شعبدے تجارت کے

کہیں نہ پھٹ پڑے آتش فشاں عداوت کا
ہر ایک سمت ہیں آثار اب قیامت کے
امیر شہر کی کرتے ہیں ناز برداری
اصول بھول کے برقی سبھی صحافت کے
جہانگیر شیخ کے مصرعہ طرح پر عشق نگر اردو شاعری کے ۳۵ ویں عالمی آنلاین فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لئے میری دوسری کاوش
احمد علی برقی اعظمی
نہیں اصول و ضوابط رہے وہ چاہت کے
بدل گئے ہیں سبھی زاوئے محبت کے
سبھی ہیں دشمنِ جاں اپنی اس روایت کے
ہر ایک شخص ہے چکر میں مال و دولت کے
ادیب و شاعر و فنکار اور سیاست داں

جسے بھی دیکھئے بھوکے ہیں سستی شہرت کے

گواہ بھی ہیں اسی کے ، وکیل و قاضی بھی
ستم شعار سے خواہاں ہیں ہم عدالت کے
جو کررہا ہے رقم اپنی اک نئی تاریخ
مذاق اُڑاتے ہیں اس کی سبھی جہالت کے
سمجھ رہے ہیں سبھی خود کو قائدِ ملت

ہیں ذمہ دار ہمیں آج اپنی حالت کے

نہیں ہے جن سے بڑا کوئی بھی ضمیر فروش

تمام گُر اُنھیں معلوم ہیں تجارت کے

کریں گے قصد نہ وہ اس کا پھر کبھی برقی

جو آشنا ہیں مصائب سے کربِ ہجرت کے