برقی اعظمی کی روح سخن: بقلم انور خواجہ ریزیڈینٹ ایڈیٹر، ہفت روزہ ’’اُردو لنک‘‘ امریکہ

برقیؔ اعظمی کی روحِ سخن
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی جیسے قادر الکلام شاعر کے مجموعۂ شاعری ’’روحِ سخن‘‘ کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے گھبراہٹ سی ہو رہی ہے کہاں وہ اور کہاں یہ ناچیز۔

برقیؔ اعظمی ایک زود گو شاعر ہیں۔ اُن کی زود گوئی ان کے کلام کے معیار پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اسے مہمیز کرتی ہے۔اُن کی طبیعت میں جو ایک جولانی، جوش ولولہ اور زمزمہ ہے اسے حاصل کرنے میں انھوں نے نہ صرفِ پتہ مارا ہے بلکہ جگر کاوی کی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ ایک ساحر ایک جادوگر ہیں۔ اُن کے سامنے الفاظ تشبیہات تلمیحات اور محاورے قطار اندر قطاردست بستہ سر جھکائے کھڑے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب برقیؔ صاحب حکم دیں اور وہ سجدہ بجا لائیں۔

اُردو ان کے گھر کی لونڈی ہے اور فارسی اُن کی دوست۔انہوں نے ابوالکلام آزاد اور اقبالؔ کی فارسی غزلوں کو جس طرح اُردو کا جامہ پہنایا ہے تو یوں لگتا ہے کہ یہ غزلیں اُردو میں لکھی گئی ہیں۔ برقیؔ اعظمی کی قادرالکلامی، تخلیقی قوت اور اسلوب کا تہور جان کر مجھے تین شاعر یاد آتے ہیں۔ میر انیسؔ ، جوش ملیح آبادی اور جعفر طاہر۔ ان تینوں کو زبان و بیان پر جو قدرت حاصل تھی وہ اپنی مثال آپ ہیں۔انہوں نے طرح طرح اور متنوع موضوعات کو جس حُسنِ نزاکت اور دلنشینی سے پیش کیا ہے اُسے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا داد صلاحیت ہے۔تخلیقی عمل کا تجزیہ ایک بڑا کٹھن مرحلہ ہے اور اس کے بارے میں کوئی عالم یا نقاد آخری رائے نہیں دے سکتا۔ برقیؔ اعظمی نے ان شاعروں کی صف میں کھڑے ہونے کی کاوش کی۔ انہوں نے ہیئت اور موضوع میں روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جدید تقاضوں کو پس انداز نہیں ڈالا۔ ان کے اسلوب میں جو جوشِ بیان ہے وہ صرف الفاظ سے پیدا نہیں ہوتا اس کا تعلق بحر و آہنگ سے ہے۔ انہوں نے مشکل زمینوں اور لمبی بحروں سے اجتناب کیا۔ وہ اپنے تخیل کی صناعی اور فنکاری کو پورے طور پر بروئے کار لائے اور فن اور اسلوب کو ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک نیا شعری سانچا تخلیق کیا جس میں جذبات کی صداقت،انداز کی شیرینی اور حلاوت قدم قدم پر آپ کو ملتی ہے۔

غزل اپنی تنگ دامنی کی وجہ سے ردیف اور قافیہ میں قید ہے اور بہت سے موضوعات کو اس انداز میں پیش نہیں کرسکتی لیکن ایک قادر الکلام شاعر کے سامنے یہ تنگ دامانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میرؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ نے جس طرح غزل کے امکانات میں ایسی وسعت پیدا کی کہ دُنیا کے سارے مسائل کا احاطہ کر لیا۔ برقیؔ اعظمی نے روایات کی پیروی کی وہ جذبات کو مصور کرتے ہیں اور خیالات کی تصویر بناتے ہیں۔

برقیؔ اعظمی نے اپنی غزلوں میں چھوٹی بحر کو استعمال کیا ہے۔ اُردو کے کلاسیکل شاعروں نے بھی یا درمیانی بحریں زیادہ استعمال کی ہیں۔ شاید بہت سے مضامیں کو ان بحروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ میر تقی میرؔ غالباً پہلے شاعر ہیں جنھوں نے نہایت صناعی اور مہارت سے چھوٹی بحروں کا استعمال کیا ایک اور ہر طرح کے مضامین کو ان میں باندھا۔ غالبؔ نے چھوٹی بحریں استعمال کیں لیکن زیادہ نہیں۔ البتہ جدید دور میں جگر مرادآبادی اور ان کے بعد فیض احمد فیضؔ نے چھوٹی بحروں کو نہایت چابکدستی سے برتا۔ برقیؔ اعظمی کی غزلوں کا زیادہ سرمایہ چھوٹی بحروں میں ہے۔ انھوں نے جوش بیان اور معنی کو اس طرح شیر و شکر کیا کہ غزل کی غنائیت اور سوز و گداز ذرا بھی مجروح نہیں ہوا۔

برقیؔ اعظمی کی غزل میں آپ کو جس کلچر کی گونج سنائی دیتی ہے وہ بر صغیر ہند و پاک کی گنگا جمنی رنگت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا لہجہ اسلامی ہے۔ میں ثبوت کے طور پر ان کی چند غزلیں پیش کرتا ہوں۔

دیارِ شوق میں تنہا بُلا کے چھوڑ دیا

حسین خوابِ محبت دکھا کے چھوڑ دیا

کیا تھا وعدہ نبھانے کا رسمِ اُلفت کا

دکھائی ایک جھلک مُسکرا کے چھوڑ دیا

وہ سبز باغ دکھاتا رہا مجھے اور پھر

نگاہِ ناز کا شیدا بنا کے چھوڑ دیا

اُجاڑنا تھا اگر اُس کو تو بسایا کیوں

نگارخانۂ  ہستی سجا کے چھوڑ دیا

سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہاں سے جاؤں کہاں

عجیب موڑ پہ یہ اُس نے لا کے چھوڑ دیا

ہے آج خانۂ قلبِ حزیں یہ تیرہ و تار

جلا کے شمعِ تمنا بُجھا کے چھوڑ دیا

***

نظر بچا کے وہ ہم سے گزر گئے چُپ چاپ

ابھی یہیں تھے نہ جانے کِدھر گئے چُپ چاپ

ہوئی خبر بھی نہ ہم کو کب آئے اور گئے

نگاہِ ناز سے دل میں اُتر گئے چُپ چاپ

دکھائی ایک جھلک اور ہو گئے روپوش

تمام خواب اچانک بکھر گئے چُپ چاپ

یہ دیکھنے کے لئے منتظر ہیں کیا وہ بھی

دیارِ شوق میں ہم بھی ٹھہر گئے چُپ چاپ

کریں گے ایسا وہ اِس کا نہ تھا ہمیں احساس

وہ قول و فعل سے اپنے مُکر گئے چُپ چاپ

فصیلِ شہر کے باہر نہیں کسی کو خبر

بہت سے اہل ہنر یوں ہی مر گئے چُپ چاپ

دکھا رہے تھے ہمیں سبز باغ وہ اب تک

اُنھیں جو کرنا تھا برقیؔ وہ کر گئے چُپ چاپ

***

اُردو کلچر اور ادب کو اس دَور میں جو مخدوش حالات درپیش ہیں ان پر سیاسی مذہبی ثقافتی اور ہُنری نظریات کی ایک زبردست یلغار ہے۔ اس یلغار کو صرف برقیؔ اعظمی جیسے دانشور اپنی تخلیقات سے روک سکتے ہیں۔

عظیم ادب کے دو اصول ہوتے ہیں۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اس شہ پارے میں وہ ساری خوبیاں اور جوہر موجود ہوں جن کو ہم داخلی خصوصیات کہتے ہیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ہیئت واسلوب سے زیادہ اہم شاعر کا پیغام ہوتا ہے جو اعلیٰ ترین خیالات اور تصورات کا مرقع ہوتا ہے۔

شاعری جزویست از پیغمبری

اس نظریہ کی روشنی میں اگر دُنیا کے عظیم شاہکاروں کو پرکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عظیم ادب وہ ہے جو عظیم تصورات پیش کرتا ہے۔ اس اصول،کا اطلاق برقیؔ اعظمی کی شاعری پر پوری طرح ہوتا ہے۔

برقیؔ اعظمی کی شاعری کا ایک پہلو ایسا ہے جس پر بہت شاعروں نے طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ موضوعاتی شاعری ایک کٹھن، مشکل اور خشک فن ہے۔ انھوں نے ’’یادِ رفتگاں‘‘ کے عنوان کے تحت زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں شخصیات پر نظمیں کہی ہیں۔ اکثر نظمیں فی البدیہہ ہیں۔ برقیؔ اعظمی کی موضوعاتی شاعری کلاسیکی روایاتِ شعر و ادب سے پوری طرح ہم آہنگ ہے لیکن اس میں عصرِ حاضر کا رنگ بھی پوری طرح آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اعظمی صاحب کے یہاں موضوعات کے انتخاب میں ایک آفاقیت ہے۔ وہ رنگ و نسل اور مذہب کی حدود پار کر جاتے ہیں۔ان کے دل میں انسانیت کا گہرا درد موجود ہے۔ انہوں نے جو نقش رنگا رنگ پیش کئے اس کی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی۔ اعلیٰ انسانی اقدار اور آفاقی محبت ان کی موضوعاتی شاعری کا سمبل ہے۔ اس طرح وہ ایک تاریخی شعور سے آشنا ہوتے ہیں جو ان کو صوفیوں کے حلقہ میں لے آتا ہے۔ میرے نزدیک وہ جدید دور کے سچے صوفی ہیں۔

مجھے پورا یقین ہے کہ ان کے شعری مجموعے ’’روحِ سخن‘‘ کی نہ صرف ادبی حلقوں بلکہ عوام میں بھی پذیرائی ہو گی۔ میری نیک تمنائیں اور دُعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

***

انور خواجہ

ریزیڈینٹ ایڈیٹر، ہفت روزہ ’’اُردو لنک‘‘

امریکہ