ایک زمین کئی شاعر ندا فاضلی ، شہناز شازی اور احمد علی برقی اعظمی :بشکریہ ناظم ایک زمین کئی شاعر محترم عمر جاوید خان

  
ایک زمین کئی شاعر

ندا فاضلی ، شہناز شازی اور احمد علی برقی اعظمی

ندا فاضلی

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا 
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا 
تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو 
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا 
کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں 
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا 
یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں 
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا 
چراغ جلتے ہیں بینائی بجھنے لگتی ہے 
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا

شہناز شازی

کوئی حبیب کوئی مہرباں نہیں ملتا

ہزار لوگوں میں اک ہم زبان نہیں ملتا

ہنسی، ملال، اداسی، قرار، بےچینی

تمہارا لطف و کرم کب، کہاں نہیں ملتا

کسی کی چارہ گری نے بھرے یوں زخم جگر

کہ ڈھونڈنے سے اب ان کا نشاں نہیں ملتا

اکیلی اپنے دکھوں پر میں کب تلک روؤں

ہزار غم ہیں مگر نوحہ خواں نہیں ملتا

خلوص و پیار ملا ہے کبھی تو بن مانگے

” جہاں امید ہو اسکی وہاں نہیں ملتا”

ہم اپنے چہرے پہ خوشیوں کو یوں سجاتے ہیں

دکھوں کی رت میں بھی رنگ خزاں نہیں ملتا

ترے فراق میں جلتا ہے دل جگر شازی

انوکھی آگ ہے اس میں دھواں نہیں ملتا

احمد علی برقیؔ اعظمی

سمجھ رہا تھا جسے مہرباں نہیں ملتا

جو بانٹ لے مرا دردِ نہاں نہیں ملتا

شبِِ فراق میں وہ جانِ جاں نہیں ملتا
’’ جہاں اُمید ہو اُس کی وہاں نہیں ملتا ‘‘
ہے اُس کا طرزِ عمل میرے ساتھ کچھ ایسا
زمیں سے جیسے کہیں آسماں نہیں ملتا
بظاہر اس سے مری راہ و رسم ہے لیکن
کبھی وہ چھوڑ کے وہم و گُماں نہیں ملتا
بہار میں بھی نمایاں خزاں کے ہیں آثار
وہ باغِ دل کا مرے باغباں نہیں ملتا
کہوں تو کس سے کہوں جا کے اپنا حالِ زبوں
جومعتبر ہو مرا رازداں نہیں ملتا
بھروسہ کرسکوں قول و عمل پہ میں جس کے
مرا کہیں بھی کوئی پاسباں نہیں ملتا
ہے میرے جسم میں خوں مِثلِ آتشِ سیال
بغیر آگ کہیں بھی دھواں نہیں ملتا
مجھے تو لگتے ہیں میری ہی طرح سب بیچین
بتائیں آپ کہاں نوحہ خواں نہیں ملتا
ہے سب کا راگ الگ اور الگ ہے دفلی بھی
نجھے کہیں بھی مرا ہم زباں نہیں ملتا
جسے بھی دیکھئے وہ پی رہا ہے زہر کا گھونٹ
غلط ہے یہ کہ کوئی نیم جاں نہیں ملتا
ہیں اُس کے حاشیہ بردار ہر جگہ موجود
امیر شہر کا نام و نشاں نہیں ملتا
ہیں یوں تو سیکڑوں اخبار عصرحاضر میں
بیاں کرے جو مری داستاں نہیں ملتا
امیر شہر کے ہیں زر خرید سب اخبار
مِلائے اُس کی نہ جو ہاں میں نہیں ملتا
سکونِ قلب میسر نہیں کہیں برقیؔ 
ہرایک چیز ہے امن و اماں نہیں ملتا