ایک زمین کئی شاعر سید ضمیر جعفری اور احمد علی برقی اعظمی

ایک زمین کئی شاعر
سید ضمیر جعفری اور احمد علی برقی اعظمی
سید ضمیر جعفری
تجرباتِ تلخ نے ہر چند سمجھایا مجھے
دل مگر دل تھا اسی محفل میں لے آیا مجھے
حسن ہر شے پر توجہ کی نظر کا نام ہے
بارہا کانٹوں کی رعنائی نے چونکایا مجھے
دور تک دامان ہستی پر دیئے جلتے گئے
دیر تک عمر گزشتہ کا خیال آیا مجھے
ہر نظر بس اپنی اپنی روشنی تک جا سکی
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
ہر رواں لمحہ بڑی تفصیل سے ملتا گیا
ہر گزرتے رنگ نے خود رک کے ٹھہرایا مجھے
غنچہ و گل مہر و مہ ابر و ہوا رخسار و لب
زندگی نے ہر قدم پر یاد فرمایا مجھے
احمد علی برقی ؔاعظمی
یہ جہانِ آب و گِل لگتا ہے اک مایا مجھے
ہر قدم پر جستجو نے جس کی بہکایا مجھے
زندگی بھر میرے اپنوں نے دیا مجھ کو فریب
تھے جو بیگانے انھوں نے آکے اپنایا مجھے
وعدۂ امروز و فردا میں الجھ کر رہ گیا
زندگی بھر سبز باغ اک ایسا دکھلایا مجھے
اک معما جیسے ہو سب کے لئے میرا وجود
’’ ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے‘‘
جس کو دیکھو گردشِ حالات کا ہے وہ شکار
ہرکوئی جیسے نظر آتا ہو گھبرایا مجھے
اہلِ دنیا نے دئے ہیں اس قدر مجھ کو فریب
کرتا ہے وحشت زدہ اب اپنا ہی سایا مجھے
اس کی زلفِ خم بہ خم سے اب نکلنا ہے محال
غمزہ و ناز و ادا سے ایسا الجھایا مجھے
اب جہاں کوئی نہیں میرے لئے راہِ فرار
میرا جذبِ شوق آخر کس جگہ لایا مجھے
جاؤں تو جاؤں کہاں کوئی نہیں ہے خضرِ راہ
عمر بھر جوشِ جنوں نے میرے تڑپایا مجھے
اب اُڑاتا ہے مری صحرا نوردی کا مذاق
عشق کرنے کے لئے تھا جس نے اُکسایا مجھے
کردی سب اپنی متاعِ زندگی جس پر نثار
یہ جہانِ رنگ و بو ہرگز نہ راس آیا مجھے
میں سمجھتا تھا جسے اپنا رفیقِ زندگی
تختۂ مشقِ ستم اس نے ہی بنوایا مجھے
تھا مرا جو حا شیہ بردار برقیؔ اعظمی
اُس نے ہی طوقِ غلامی آکے پہنایا مجھے